الإثنين، 24 صَفر 1447| 2025/08/18
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 سعودی شہزادہ ترکی الفیصل ایک یہودی میڈیا مہم کیوں چلا رہا ہے؟ 

(ترجمہ) 

 

خبر:

 

          سعودی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ، ترکی الفیصل نے 1 اگست 2025 کو روسیا نیوز عربی چینل کو دیے گئے ایک انٹرویو کے دوران غزہ کی صورتحال کے بارے میں بیان دیا کہ "یہودی وجود کے خلاف ایک جامع عرب جنگ ایک ہاری ہوئی جنگ ہوگی، اور ہر کوئی یہودی وجود کی عسکری طاقت کو جانتا ہے"۔ اس نے مزید کہا: "عرب دنیا ہمیشہ امن کا انتخاب کرتی ہے، اور وہ جنگ کا انتخاب کر کے اپنے موقف کی تردید نہیں کر سکتی"۔

 

 

تبصرہ:

 

         ترکی الفیصل کے بیانات اسلامی ممالک کے حکمران طبقے کے اندرونی بحران کی عکاسی کرتے ہیں، ایک ایسا بحران جو انتہا درجے کی بزدلی، نفسیاتی شکست، اور امریکہ و مغرب کی مرضی کے سامنے جھکنے کی کیفیت سے لبریز ہے. ایسے وقت میں جب مسلم دنیا ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے، اور غزہ کو بچانے کے لیے مسلم افواج کو حرکت میں لانے کے عوامی مطالبات بڑھ رہے ہیں، حکمران اور ان کے میڈیا ترجمان اپنے اعمال و بیانات کے ذریعے کھلے عام اسلام کے دشمنوں کے ساتھ صف آرا ہو چکے ہیں، ترکی الفیصل، جو سعودی انٹیلیجنس کے سب سے طویل مدت تک خدمات انجام دینے والے سربراہ رہے ہیں، کے ان بیانات کو سن کر ذہن میں ایک مشہور قول ابھرتا ہے، "بزدل ہزار بار مرتا ہے!"۔

 

          یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ حکمران اور ان کے میڈیا کے ترجمان یہودی وجود کی کمزور طاقت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں کیونکہ اس کی طاقت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ہمیشہ اس کی بقا کا ایک بنیادی ستون رہا ہے۔ یہ مہم غدار حکمرانوں کی طرف سے، مغرب میں اپنے آقاؤں کی مدد سے، طاقتور مسلم افواج اور رائے عامہ کو فلسطین کی مبارک سرزمین کی آزادی کے خیال کو اپنانے سے روکنے کے مقصد سے چلائی جا رہی ہے۔ یہودی وجود کے سرپرستوں نے، خواہ وہ بیرونی ہی کیوں نہ ہوں، ماضی میں بھی عربوں کے ساتھ جنگیں اس لیے کیں تاکہ یہود کی عسکری برتری کی ایک مصنوعی داستان گھڑی جا سکے، اور تاکہ عرب یہ تسلیم کر لیں کہ یہودی وجود کو شکست دینا ممکن نہیں، اور بالآخر اس کے وجود کو قبول کر لیں۔ یہ خائن حکمران چاہتے ہیں کہ امت کو بھی اپنی طرح مایوسی اور شکست خوردگی کے دلدل میں دھکیل دیں۔

 

          لیکن جب ہم حقیقت کا باریک بینی سے مشاہدہ کرتے ہیں تو ترکی الفیصل کے پیش کردہ بیانیے سے بالکل متضاد نتیجہ سامنے آتا ہے۔ تو بھلا کیسے ممکن ہے کہ مسلمان ممالک کی عظیم الشان، جدید اسلحے سے لیس افواج ایک ایسے وجود کے سامنے شکست کھا جائیں جو جغرافیائی، عسکری اور صنعتی طور پر ان کے سامنے محض ایک بونا وجود ہے؟!اعداد و شمار اس مؤقف کی تائید کرتے ہیں۔

 

بحری اثاچے

کل طیارے

کل فوجی اہلکار

ملک/خطہ

121

1,399

1,704,000

پاکستان

1

182

1,083

883,900

ترکی

2

303

2,482

2,587,900

پاکستان + ترکی

مشرق وسطیٰ کے ممالک

150

1,093

1,220,000

مصر

1

32

917

407,000

سعودی عرب

2

27

274

200,500

اردن

3

123

128

103,500

   کویت

4

181

551

207,000

امارات

5

27

207

270,000

شام

6

64

132

129,900

بحرين

7

22

128

152,600

عُمان

8

33

84

86,700

يمن

9

64

80

160,000

لبنان

10

723

3,594

2,529,700

مجموعی طور پر (عرب ممالک)

62

611

670,000

یہودی وجود

 

          یہودیوں کی حالیہ فوجی مہمات کا مطالعہ ان کی حقیقی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے:وہ مغربی حمایت کے بغیر کسی بھی جنگ میں اترنے کی سکت نہیں رکھتے۔ ان کا امریکہ پر انحصار اس حد تک ہے کہ انہیں گولہ بارود تک وہیں سے لینا پڑتا ہے اور جنگ بندی کی بات چیت کے لیے بھی امریکی مداخلت درکار ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، یہودی وجود 12 روزہ جنگ کے دوران محدود ایرانی بیلسٹک میزائل حملے کو برداشت نہیں کر سکی، حالانکہ عرب حکمرانوں نے یہودی وجود کے طیاروں کے لیے فضائی راستے فراہم کیے تھے، اور امریکی اینٹی میزائل سسٹم نے بہت سے ایرانی میزائلوں کو روک دیا تھا۔ پھر جب یہودیوں کے نقصانات بڑھنے لگے اور ان کے بڑے شہروں کا بنیادی ڈھانچہ کھنڈرات میں تبدیل ہونے لگا، تو واشنگٹن نے ایرانی ایٹمی تنصیبات پر فضائی حملے کر کے جنگ کا خاتمہ کیا۔

 

          غزہ میں، یہودی وجود ہولناک قتل و غارت گری کرنے  کے باوجود امت کے عزم کو نہیں توڑ سکا۔ وہ اپنی فوجی کارروائیوں کے ذریعے اپنے قیدیوں کو آزاد کرانے سے قاصر رہا۔ چنانچہ اس نے قطر اور مصر کے خائن حکمرانوں سے مدد طلب کی۔ابھی بھی کئی یہودی قیدی غزہ کے مجاہدین کی قید میں ہیں۔  یہودی وجود غزہ، لبنان اور شام میں اپنی سرحدوں کو وسعت دینے کے لیے بھی بے تاب ہے تاکہ بفر زون قائم کر سکے، کیونکہ اس کا خیال ہے کہ اگر عرب افواج اس کی شمالی سرحدوں کی جانب حرکت کریں تو وہ جنگ جیت نہیں سکے گا، لہٰذا وہ سرپرائز فیکٹر کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

 

          تو سوال یہ ہے کہ ترکی الفیصل نے یہ غیر منطقی بیانات کیوں دیے، حالانانکہ وہ نادان نہیں ہے اور یہودی وجود کی کمزوری کو جانتا ہے؟ جواب سادہ ہے: یہودی وجود کے خلاف جہاد کے لیے افواج کو متحرک کرنے کے لیے امت مسلمہ کے حلقوں میں بڑھتا ہوا عوامی دباؤ حکومتی ایوانوں تک پہنچ چکا ہے۔  غدار حکمران محسوس کر رہے ہیں کہ زمین ان کے قدموں تلے کانپ رہی ہے، اور وہ افواج کے اندر بڑھتے ہوئے غصے سے خوفزدہ ہیں، چنانچہ انہوں نے اپنے میڈیا کے ترجمانوں کے ذریعے اس شعور کو دبانے کی کوشش کی ہے۔ مصری صدر جنرل السیسی نے حال ہی میں غزہ میں فاقہ کشی کی مذمت کی، گویا وہ قتلِ عام سے بری الذمہ ہونا چاہتا ہو، حالانکہ جنوبی سرحد سے محاصرہ وہی مسلط کیے بیٹھا ہے۔

 

          امت مسلمہ بخوبی جانتی ہے کہ ہمارے حکمران ہمارے لیے سب سے بڑی مصیبت ہیں اور غیر ملکی جارحیت کے سامنے ڈھال بننے کے بجائے، وہ مجرم حملہ آوروں کے ساتھ صف بندی کیے ہوئے ہیں۔ یہ حکمران اپنی بناوٹی سرحدوں اور اپنے مبینہ قومی مفادات کو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پر ترجیح دیتے ہیں۔ یہ لوگ ٹرمپ اور نیتن یاہو کے چہیتے ہیں۔ ان سے کسی بھلائی کی امید رکھنا سراسر حماقت ہے۔

 

          مسلمانوں کی حقیقی امید وہ مخلص افسروں اور سپاہیوں ہیں جو یہودیوں سے لڑنے اور اللہ کی راہ میں اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے بے تاب ہیں۔ غزہ کے بھوکے بچوں کی خوفناک تصاویر نے ان فوجیوں کے دلوں میں حکمرانوں کے خلاف نفرت کو مزید بھڑکا دیا ہے، اور یہ خائن حکمران افواج کے اندر ایک بڑی بیداری کے خطرے کو محسوس کر رہے ہیں۔ ہمیں مخلص افسران اور سپاہیوں کے جذبات کو مسلسل  بیدار کرتے رہنا چاہیے یہاں تک کہ یہ بیداری ایک ایسے طوفان میں بدل جائے جو غدار حکمرانوں کے تختوں کو بہا لے جائے۔ اور وہ دن دور نہیں جب امت اور اس کی افواج یہودیوں سے قتال کریں گی، ان کو شکست دیں گی، اور مسجد اقصیٰ کو آزاد کرائیں گی۔  تب، ترکی الفیصل جیسے منافقین امت اور اس  کی افواج کی تکبیرات مسجد اقصیٰ سے سنیں گے، لیکن ان کے لیے دنیا و آخرت میں سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں بچے گا۔

 

ابو الزناد سے روایت ہے کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ، جب ان کی وفات کا وقت آیا تو روئے اور فرمایا،

 

لقد وجدت كذا وكذا من الزحف، وليس في جسدي موضع إلا وفيه ضربة بسيف أو رمية بسهم، وها أنا أموت على فراشي كالبعير، فلا نامت أعين الجبناء

"میں نے اتنی اتنی لڑائیاں لڑی ہیں، اور میرے جسم میں کوئی جگہ ایسی نہیں جس پر تلوار کا وار یا تیر کا زخم نہ ہو، اور اب میں اونٹ کی طرح اپنے بستر پر مر رہا ہوں، بزدلوں کی آنکھیں کبھی نہ سوئیں!"۔

 

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: »لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُقَاتِلَ الْمُسْلِمُونَ الْيَهُودَ، فَيَقْتُلُهُمْ الْمُسْلِمُونَ، حَتَّى يَخْتَبِئَ الْيَهُودِيُّ مِنْ وَرَاءِ الْحَجَرِ وَالشَّجَرِ، فَيَقُولُ الْحَجَرُ أَوْ الشَّجَرُ: يَا مُسْلِمُ يَا عَبْدَ اللَّهِ، هَذَا يَهُودِيٌّ خَلْفِي فَتَعَالَ فَاقْتُلْهُ، إِلَّا الْغَرْقَدَ فَإِنَّهُ مِنْ شَجَرِ الْيَهُودِ« "قیامت تب تک  قائم نہیں ہوگی جب تک مسلمان یہودیوں سے جنگ نہ کر لیں، اور مسلمان انہیں قتل نہ کر لیں، یہاں تک کہ ایک  یہودی پتھر اور درخت کے پیچھے چھپ جائے گا، تب  پتھر یا درخت کہے گا: اے مسلمان! اے اللہ کے بندے! میرے پیچھے ایک یہودی ہے، آؤ اور اسے قتل کر دو، سوائے غرقد کے درخت کے، کیونکہ وہ یہودیوں کے درختوں میں سے ہے" (اسے بخاری نے روایت کیا ہے)

 

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے ریڈیو کے لیے لکھا گیا

 

محمد سلجوق – ولایہ پاکستان

 

 
Last modified onپیر, 18 اگست 2025 02:10

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک