الأربعاء، 07 محرّم 1447| 2025/07/02
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

رَبّ ابْنِ لِى عِندَكَ بَيْتاً فِى الْجَنَّةِ اے میرے رب! میرے لئے اپنے پاس جنت میں مکان بنا  - التحریم: 11

 

تحریر: مصعب بن عمیر،پاکستان

صرف اللہ سبحانہ و تعالٰی ہی ہیں جو انسان میں جنت کے حصول کی خواہش کو جگا سکتے ہیں اور اُسے اِس قابل کر سکتے ہیں کہ اس کی نگاہیں اس دنیاکی زندگی کی لذتوں اور آسائشوں سے آگے کی اُس دنیا کو دیکھ سکیں جو کبھی نہ ختم ہونے والی ہے اور جس کی لذتیں اور آسائشیں بھی کبھی ختم ہونے والی نہیں ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی ایسی مثال دیتے ہیں کہ انسانی ذہن اس کے متعلق سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے، اس کا دل اُسے پانے کی خواہش سے لبریز ہو جاتا ہے اور اس کی آنکھیں اُسے دیکھنے کی تمنا میں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں ، وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً لّلَّذِينَ امَنُواْ امْرَأَةَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبّ ابْنِ لِى عِندَكَ بَيْتاً فِى الْجَنَّةِ وَنَجّنِى مِن فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجّنِى مِنَ الْقَوْمِ الظَّـلِمِينَ "اور اللہ نے ایمان والوں کے لئے فرعون کی بیوی کی مثال فرمائی جبکہ اس نے دعا کی کہ اے میرے رب! میرے لئے اپنے پاس جنت میں مکان بنا اور مجھے فرعون سے اور اس کے عمل سے بچا اور مجھے ظالم لوگوں سے خلاصی دے" (التحریم:11)۔
سبحانہ اللہ کس قدر طاقتور مثال ہے فرعون کی بیوی، حضرت آسیہ بنت مزاحم کی! ان کی شادی اس گھر میں ہوئی تھی جہاں اس قدردولت کی فراوانی اور زبردست طاقت تھی کہ شاید ہی کوئی ایسی دولت اور طاقت حاصل کرسکے اگر وہ اپنی پوری زندگی بھی اس کے حصول میں خرچ کردے۔ وہ ایک پیار اور خیال رکھنے والی ماں تھیں اور اپنی اولاد سے بہت محبت کرتی تھیں لیکن انھیں اپنی اولاد کی جدائی کا غم اٹھانا پڑا۔ لیکن اپنے ایمان کی خاطر انھوں نے اپنی نگاہیں اس جانب مرکوز کردیں جو اس بات کی زیادہ حقدار تھی یعنی کہ اللہ سبحانہ و تعالٰی کی جنت۔ قتادہ فرماتے ہیں کہ، "زمین پر بسنے والے لوگوں میں فرعون سب سے زیادہ جابر اور ایمان کی دولت سے محروم تھا۔ اللہ کی قسم! اس کی بیوی اس کے کفر سے متاثر نہیں ہوئی تھی کیونکہ انھوں نے اپنے رب کی طابعدار ی کی تھی"۔ یہ اللہ کی اس جنت کی جانب نظریں مرکوز کرنے کا نتیجہ تھا کہ ایک نازک اور کمزور عورت نے لوہے جیسے مضبوط ارادے کا مظاہرہ کیا۔ یہ ارادہ اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ انسانی تاریخ میں گزرے کئی جابر اسے توڑ نہ سکے! ابن جریر روایت کرتے ہیں کہ سیلمان نے کہا کہ "فرعون کی بیوی پر سورج کی تپش میں تشدد کیا گیا اور جب فرعون اپنے تشدد کے سلسلے کو روکتا تو فرشتے اپنے پروں سے ان پر سایا کردیتے۔ انھیں جنت میں ان کا گھر دِکھایا گیا"۔ ابن جریر کہتے ہیں کہ القاسم بن ابی بازح نے کہا کہ "فرعون کی بیوی کہا کرتی تھی، 'کون باقی رہا'۔ جب انھیں بتایا جاتا موسٰی اور ہارون تو وہ فرماتیں،'میں موسٰی اور ہارون کے رب پر ایمان رکھتی ہوں' "۔
یہی اُس جنت کے حصول کی شدید خواہش تھی جس نے انھیں جابر اور اس کے جبر کے سامنے ثابت قدم رکھا اور اللہ سبحانہ و تعالٰی ان سے اس قدر خوش ہوئے کہ انھیں اُس موت سے محفوظ رکھا جو جابر انھیں دینا چاہتا تھا کہ اس کے مارنے سے قبل ہی ان کی روح اللہ سبحانہ و تعالٰی کے پاس پہنچ گئی۔ فرعون نے اپنے ساتھی ان کی پاس بھیجے اور ان سے کہا کہ سب سے بڑا پتھر تلاش کرنا اور اگر وہ اپنے ایمان پر اصرار کرے تو وہ پتھر اُس کے سر پر مار دینا ، ورنہ وہ میری بیوی ہے۔ جب فرعون کے ساتھی بی بی آسیہ کے پاس پہنچے تو انھوں نے آسمان کی جانب دیکھا اور جنت میں موجود اپنے گھر کو دیکھا۔ انھوں نے اپنے ایمان پر اصرار کیا اور پھر اللہ کے حکم سے ان کی روح قبض کرلی گئی۔ آخر میں وہ پتھر ان کے بے جان جسم پر پھینکا گیا۔ یہ مثال ہر اس مرد اور عورت کے لئے ہے جو اس دنیا کو چھوڑ کر اپنے رب کی رضا کے لئے حق پر اور جابر کے سامنے ڈٹا رہتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے اس مقدس روح کے متعلق فرمایا، أَفْضَلُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ: خَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ، وَفَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ، وَمَرْيَمُ ابْنَةُ عِمْرَانَ، وَآسِيَةُ بِنْتُ مُزَاحِمٍ امْرَأَةُ فِرْعَوْن "جنت کی خواتین میں سب سے افضل خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد، مریم بنت عمران اور آسیہ بنت مزاحم فرعون کی بیوی ہیں"۔
موجودہ دور کے مسلمانوں کے لئے یہ ایک انتہائی طاقتور مثال ہے جو انھیں اس بات پر آمادہ کرے کہ وہ آج کے دور کے جابروں، بشار، کریموف اور ان جیسوں کے سامنے استقامت کے ساتھ کھڑے ہو سکیں جو مسلمانوں پر کفر نافذ کرتے ہیں۔ ہمیں کسی صورت اس عمل سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہے کوئی جان سے مارنے کی دھمکیاں دے یا ہمیں جان سے مارنے کی کوشش کرے۔ اس دنیا کی زندگی اور اس میں پیش آنے والی تکالیف کا جنت کی ہمیشہ ہمیشہ کی راحت سے کیا مقابلہ ہے؟ إِنَّ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّـلِحَاتِ وَأَخْبَتُواْ إِلَى رَبِّهِمْ أُوْلَـئِكَ أَصْحَـبُ الجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَـلِدُونَ "یقیناً جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے کام بھی نیک کیے اور اپنے پالنے والے کی طرف جھکتے رہے، وہی جنت میں جانے والے ہیں جہاں وہ ہمیشہ ہی رہنے والے ہیں" (ھود: 23)۔ ہمیں کسی صورت جبر کو ختم کرنے کی کوشش سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہے زندانوں میں چلے جانے کی وجہ سے یا جابروں کے غنڈوں سے بچنے کے لئے ہمیں اپنے گھر ہی کیوں نہ چھوڑنا پڑے اور اس کے نتیجے میں ان لوگوں سے ہی کیوں نہ جدا ہوجائیں جن سے ہم محبت کرتے ہیں۔ ہاں جب ہم اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں اور بوڑھے والدین سے جدا ہوتے ہیں تو دل غم سے بوجھل ہوجاتا ہے لیکن ایسی کوئی بھی جدائی بہت مختصر ہوتی ہے اگر اس کا تقابلہ ہمیشہ ہمیشہ کی جنت کی زندگی سے کیا جائے جہاں ہمیں پھر اپنے پیاروں سے ملا دیا جائے گا اور پھر کوئی کبھی بھی جدا نہ کرسکے گا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں، جَنَّـتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَائِهِمْ وَأَزْوَجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَالمَلَـئِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِّن كُلِّ بَابٍ "ہمیشہ رہنے کے باغات، جہاں یہ خود جائیں گے اور ان کے باپ، دادوں اور بیویوں اور اولادوں میں سے بھی جو نیکو کار ہوں گے، ان کے پاس فرشتے ہر دروازے سے آئیں گے" (الرعد: 23)۔ لہٰذا اللہ انھیں ان کے پیاروں کے ساتھ اکٹھا کرے گا جو ان کے باپوں ، خاندان اور اولادوں میں سے ہونگے اور نیکو کار بھی ہونگے اور اس بات کے حقدار ہونگے کی وہ جنت میں داخل ہوں تا کہ انھیں دیکھ کر ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک ملے۔ جدائی کے بعد کیا ہی خوشیوں والا ملاپ ہوگا! ادْخُلُواْ الْجَنَّةَ أَنتُمْ وَأَزْوَجُكُمْ تُحْبَرُونَ - يُطَافُ عَلَيْهِمْ بِصِحَـفٍ مِّن ذَهَبٍ وَأَكْوَبٍ وَفِيهَا مَا تَشْتَهِيهِ الاٌّنْفُسُ وَتَلَذُّ الاٌّعْيُنُ وَأَنتُمْ فِيهَا خَـلِدُونَ - وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِى أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ - لَكُمْ فِيهَا فَـكِهَةٌ كَثِيرَةٌ مِّنْهَا تَأْكُلُونَ "تم اور تمھاری بیویاں ہشاش بشاش (راضی خوشی) جنت میں چلے جاؤ۔ ان کے چاروں طرف سے سونے کی رکابیاں اور سونے کے گلاسوں کا دور چلایا جائے گا، ان کے جی جس چیز کی خواہش کریں اور جس سے ان کی آنکھیں لذت پائیں، سب وہاں ہوگا اور تم اس میں ہمیشہ رہو گے۔ یہی وہ جنت ہے کہ تم اپنے اعمال کے بدلے اس کے وارث بنائے گئے ہو۔ یہاں تمھارے لئے بکثرت میوے ہیں جنہیں تم کھاتے رہو گے " (الزخرف: 70-73)۔ وہ لوگ جنہیں ان کے پیاروں سے جدا کردیا گیا ہے انہیں چاہیے کہ وہ صبر کریں اور اپنی اس صورتحال پر افسوس نہ کریں اور نہ ہی غمگین ہوں۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی جنت میں ان لوگوں کے درجات کو بھی بلند فرمائیں گے جن کے درجات بلند نہیں ہوں گے اور انہیں بلند درجوں والوں تک بلند کریں گے اور ایسا کرنے سے بلند درجوں والوں کے درجات کم نہ ہوں گے اور یہ اللہ کی خاص مہربانی ہو گی۔ عبدل اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ، جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ تَقُولُ فِي رَجُلٍ أَحَبَّ قَوْمًا وَلَمْ يَلْحَقْ بِهِمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ "ایک آدمی رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ: اے اللہ کے پیغمبرﷺ! اس آدمی کے متعلق آپﷺ کیا فرماتے ہیں جو لوگوں سے محبت کرتا ہے لیکن ان کے درجات کو نہیں پہنچ پاتا؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: آدمی ان کے ساتھ ہو گا جن سے وہ پیار کرتا ہے" (بخاری: 5703)۔ ال بزر نے حسن اسناد کے ساتھ عبدل اللہ بن عمر سے روایت کی کہ اللہ کے رسولﷺ فرماتے ہیں: مَنْ أَحَبَّ رَجُلا لِلَّهِ ، فَقَالَ إِنِّي أُحِبُّكَ لِلَّهِ ، فَدَخَلا الْجَنَّةَ ، فَكَانَ الَّذِي أَحَبَّ أَرْفَعُ مَنْزِلَةً مِنَ الآخَرِ ، الْحَقُّ بِالَّذِي أَحَبَّ لِلَّهِ "جو شخص بھی اللہ کے لئے کسی سے محبت کرتا ہے اور کہتا ہے: میں نے تم سے اللہ کے واسطے محبت کی، اور پھر انہیں جنت میں داخل کردیا گیا، اور ان میں ایک کا درجہ دوسرے سے بلند تھا لیکن دوسرے کو پہلے والے کے ساتھ ملا دیا جائے گا" (ال بزر: 2439)۔
تو ہمیں جابروں کے سامنے ثابت قدم رہنا ہے ، مسلمانوں کو مصائب سے بچانا ہے اور بلند درجات کوحاصل کرنا ہے کہ یہی جنت کا راستہ ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا، هَلْ تَدْرُونَ أَوَّلَ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ خَلْقِ اللهِ؟ "کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کی مخلوقات میں سے کون سب سے پہلے جنت میں داخل ہوگا؟ أوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ خَلْقِ اللهِ الْفُقَرَاءُ الْمُهَاجِرُونَ الَّذِينَ تُسَدُّ بِهِمُ الثُّغُورُ، وَتُتَّقَى بِهِمُ الْمَكَارِهُ، وَيَمُوتُ أَحَدُهُمْ وَحَاجَتُهُ فِي صَدْرِهِ، لَا يَسْتَطِيعُ لَهَا قَضَاءً، فَيَقُولُ اللهُ تَعَالَى لِمَنْ يَشَاءُ مِنْ مَلَائِكَتِهِ: ائْتُوهُمْ فَحَيُّوهُمْ، فَتَقُولُ الْمَلَائِكَةُ: نَحْنُ سُكَّانُ سَمَائِكَ، وَخِيرَتُكَ مِنْ خَلْقِكَ، أَفَتَأْمُرُنَا أَنْ نَأْتِي هؤُلَاءِ وَنُسَلِّمَ عَلَيْهِمْ؟ فَيَقُولُ: إِنَّهُمْ كَانُوا عِبَادًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا، وَتُسَدُّ بِهِمُ الثُّغُورُ، وَتُتَّقَى بِهِمُ الْمَكَارِهُ، وَيَمُوتُ أَحَدُهُمْ وَحَاجَتُهُ فِي صَدْرِهِ لَا يَسْتَطِيعُ لَهَا قَضَاءً قَالَ : فَتَأْتِيهِمُ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ ذَلِكَ فَيَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ بَاب "اللہ کی مخلوقات میں سے سب سے پہلے جنت میں داخل ہونےوا لے غریب مہاجرین ہوں گے (جنھوں نے اللہ کے راستے میں ہجرت کی) جن کی وجہ سے سرحدوں کی حفاظت ہو گی اور بیشتر مشکلات سے بچاؤ ہوگا۔ ان میں سے ایک اس حال میں مرا کہ اس کی ضرورت اس کے دل میں ہی رہ گئی کیونکہ وہ خود اپنی اس ضرورت کو پورا نہیں کرسکتا تھا۔ اللہ اپنے فرشتوں میں سے جن کو چاہے گا کہے گا کہ ان کے پاس جاؤ ان کا استقبال کرو اور انہیں سلام کہو۔ فرشتے کہیں گے کہ ہم آپ کی جنت میں رہنے والے ہیں اور آپ کی تخلیقات میں سے سب سے بہترین ہیں، تو کیا آپ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم ان کے پاس جائیں، ان کا استقبال کریں اور انہیں سلام کہیں۔ اللہ فرمائیں گے، یہ میرے بندے ہیں جنہوں نے میری عبادت کی اور کسی شخص یا چیزکو میرے ساتھ شریک نہیں ٹھہرایا۔ ان کی وجہ سے سرحدوں کی حفاظت ہوئی اور مشکلات کا منہ موڑ دیا گیا۔ ان میں سے ایک اس حال میں مرا کہ اس کی ضرورت اس کے دل میں ہی رہ گئی کیونکہ وہ اس کو حاصل نہیں کرسکتا تھا"۔
جابروں کو ہٹانے اور جنت کے حصول کی راہ میں آنے والی مشکلات اور مصائب سے ہم نے کسی صورت نہ تو گھبرانا ہے اور نہ ہی اس پر افسوس کا اظہار کرنا ہے۔ أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْاْ مِن قَبْلِكُم مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلْزِلُواْ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ َالَّذِينَ ءَامَنُواْ مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ أَلاَ إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ "کیا تم یہ گمان کئے بیٹھے ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ اب تک تم پر وہ حالات نہیں آئے جو تم سے آگلے لوگوں پر آئے تھے، انھیں بیماریاں اور مصیبتیں پہنچیں اور وہ یہاں تک جھنجوڑے گئے کہ رسول اور اس کے ساتھ کے ایمان لانے والے کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سن رکھو کہ اللہ کی مدد قریب ہی ہے" (البقرۃ: 214)۔ أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَـهَدُواْ مِنكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّـبِرِينَ "کیا تم یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ تم جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ اب تک اللہ تعالٰی نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ تم میں سے جہاد کرنے والے کون ہیں اور صبر کرنے والے کون ہیں" (آل عمران: 143)۔ ہمیں اس زمین پر اللہ کے دین کے نفاذ کے لئے خلافت کے قیام کی جدوجہد کرنی چاہیے اور یہ جدوجہد ایسی شاندار ہونی چاہیے کہ جابر خوفزدہ ہوجائیں، ان کا اقتدار لڑکھڑائے اور گر جائے اور ان کا جبر ہمارے ایمان کی مضبوطی اور سختی سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے!

Read more...

أَكْثِرُوا ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ يَعْنِي الْمَوْتَ "اس کو کثرت سے یاد کیا کرو جو تمام لذتوں کو ختم کرنے والی ہے، یعنی موت'' (الترمذی۔2229)۔


تحریر: مصعب عمیر ، پاکستان
بے شک موت اس قابل ہے کہ اس کو یاد کیا جائے۔ معیارِ زندگی، مال اور صحت کے برعکس موت ایک یقینی امر ہے۔یہ اس دنیا کی عارضی زندگی سے ہمیشہ کی آخرت کی زندگی کے طرف سفر کا آغاز ہے۔اللہ سبحان وتعالٰی نے فرمایا، كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَـمَةِ فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَما الْحَيَوةُ الدُّنْيَا إِلاَّ مَتَـعُ الْغُرُورِ ''ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور قیامت کے دن تم اپنے بدلے پورے پورے دیے جاؤ گے۔پس جو شخص آگ سے ہٹا دیا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے بے شک وہ کامیاب ہو گیا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کی جنس ہے'' (آلِ عمران: 185)۔ اس کے علاوہ موت کو دھوکہ دینا،اس کو ٹال دینا یا بچ نکلنا ناممکن ہے۔ہر ذی روح اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ وقت پر مر جائے گی۔اللہ سبحان وتعالیٰ نے فرمایا، "جب ان کا وہ معین وقت آ پہنچتا ہے تو ایک گھڑی نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ آگے سرک سکتے ہیں" (یونس: 10)۔ اور اللہ سبحان وتعالیٰ نے فرمایا، إِذَا جَآءَ أَجَلُهُمْ فَلاَ يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلاَ يَسْتَقْدِمُونَ "جب ان کا معین وقت آپہنچتا ہے تو ایک گھڑی نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ آگے سرک سکتے ہیں" (یونس: 49)۔ اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا، وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلاَّ بِإِذْنِ الله كِتَـباً مُّؤَجَّلاً "بغیر اللہ تعالیٰ کے حکم کے کوئی جاندار نہیں مر سکتا، مقرر شدہ وقت لکھا ہوا ہے'' (آلِ عمران: 145)۔
یہ موت ہے۔یہ اٹل ہے اوراس زندگی کو ختم کرنے والی ہے۔یہ ایسے وقت پر واقع ہوتی ہے جو صرف اللہ سبحان وتعالیٰ کو معلوم ہے۔ لہٰذامستقبل میں واقع ہونے والے ایک غیر اعلانیہ امر سے متعلق ایک شخص کو کیا کرنا چاہئے؟ ایک ایسا امر جو ہمیں ہماری زندگی کے ہر لمحے سے دور کر دے گا! عقل مند وہ ہے جواس کے لئے ہمیشہ تیار ہے،اچھے اعمال کر کے اور برے اعمال سے بچ کے اور ہلاکت ہے اس کمزور انسان کے لئے جو اس سے افسوس کے ساتھ ملاقات کرے گا۔رسول اللہﷺ نے فرمایا، الْكَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهُ هَوَاهَا وَتَمَنَّى عَلَى اللَّهِ "عقل مند وہ ہے جس نے اپنے نفس کو درست کیا اور موت کے بعد کی تیاری کی اور کمزور وہ ہے جس نے اپنی خواہشات کی پیروی کی اور پھر اللہ سے بے سود دعائیں کیں" (الترمذی:2383)۔ ہلاکت ہے ان کمزوروں کے لئے جو موت کو دیکھنے کے بعد توبہ کی طرف لپکیں گے۔اللہ سبحان وتعالٰی نے فرمایا، وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَـتِ حَتَّى إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّى تُبْتُ الاٌّنَ وَلاَ الَّذِينَ يَمُوتُونَ وَهُمْ كُفَّارٌ أُوْلَـئِكَ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَاباً أَلِيماً "ان کی توبہ (قبول) نہیں جو برائیاں کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آ جائے تو کہہ دے کہ میں نے ا ب توبہ کی، اور ان کی توبہ بھی قبول نہیں جو کفر پر ہی مر جائیں،یہی لوگ ہیں جن کے لئے ہم نے المناک عذاب تیار کر رکھا ہے'' (النساء: 18)۔ اور اللہ سبحان وتعالٰی نے فرمایا، حَتَّى إِذَا جَآءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ - لَعَلِّى أَعْمَلُ صَـلِحاً فِيمَا تَرَكْتُ كَلاَّ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَآئِلُهَا وَمِن وَرَآئِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ ''یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے اے میرے پروردگار!مجھے واپس لوٹا دے۔کہ اپنی چھوڑی ہوئی دنیا میں جا کرنیک اعمال کر لوں، ہرگز ایسا نہیں ہو گا، یہ تو صرف ایک قول ہے جس کا یہ قائل ہے، ان کے پس پشت تو ایک حجاب ہے، ان کے دوبارہ جی اٹھنے کے دن تک'' (المؤمنون: 99-100)۔ ہلاکت ہے اس کمزور کے لئے جس کے لیے لفظ كَلاَّ استعمال کیا گیا جس کا معنی ہے: "نہیں، جو یہ کہتا ہے ہم اس کا جواب نہیں دیں گے اور اس کو قبول نہیں کریں گے"۔ لہٰذا ہم ربیع بن خثام کے متعلق سنتے ہیں جنہوں نے اپنے گھر میں ایک قبر کھود رکھی تھی کہ اگر وہ اپنے دل میں سختی پاتے تو وہ اس میں داخل ہو جاتے اور اس وقت تک لیٹے رہتے جب تک اللہ چاہتا اور بار بار یہ آیات تلاوت کرتے، رَبِّ ارْجِعُونِ - لَعَلِّى أَعْمَلُ صَـلِحاً فِيمَا تَرَكْتُ ''اے میرے رب! مجھے واپس بھیج دے کہ شاید میں اعمال ِ صالح کر سکوں جو میں نے چھوڑ دیے''۔ پھر اپنے آپ کو جواب دیتے، ''اے ربیع! تجھے واپس بھیج دیا گیا ہے لہٰذا عمل کر''۔
برزخ میں ہمارا وقت اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ہمیں روزِ قیامت حساب کتاب کے لیے نہیں بلایا جاتا۔ لہٰذا برزخ میں داخل ہونے کے بعد زندگی کی طرف واپسی نہیں، صرف احتساب کی طرف راستہ ہے۔ مجاہد کہتے ہیں، ''البرزخ اس دنیا اور آخرت کے درمیان ایک حجاب ہے''۔ محمد بن کعب کہتے ہیں، ''البرزخ اس دنیا اور آخرت کے درمیان ہے۔ وہ نہ تو اس دنیا کی طرح کھاتے پیتے لوگ ہیں نہ ہی آخرت کے لوگوں کی طرح سزا یافتہ یا جزاء یافتہ لوگ''۔ لہٰذا یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں ، سزا اور جزاء کے فیصلے سے بچنا توایک طرف، کوئی عمل بھی نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا جب ایک شخص یہ سوال کرتا ہے کہ روزِ حساب کب آئے گا تو ذاتی طور پر اس شخص کے لیے اس کے مرنے کے ساتھ ہی اس کے حساب کتاب کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔
لہٰذا عقل مند وہ ہے جو اس حقیقت پر یقین رکھتا ہے اور زندگی کے ہر لمحے میں اس کے لیے کام کرتا ہے۔ اور اللہ اس شخص سے واقف ہے جو ہم میں سب سے زیادہ عقل مند اور بہترین ہے یعنی رسول اللہﷺ کیونکہ وہ ہمیشہ موت کے لیے تیار رہتے تھے۔ ابو بکررضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ آپﷺ سے عرض کیا، ''یا رسول اللہﷺ! آپ کے بال سلیٹی رنگت کے ہو گئے ہیں''۔ آپﷺنے فرمایا، شَيَّبَتْنِي هُودٌ وَالْوَاقِعَةُ وَالْمُرْسَلَاتُ وَعَمَّ يَتَسَاءَلُونَ وَإِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَت ''میرے بالوں کی سلیٹی رنگت کی وجہ (سورۃ) ہوداور واقعہ اور مرسلات اور عم یتسا ء لون اور اذا الشمس کورت ہیں'' (الترمذی: 3219)۔ ابن عمر کے ابن نجار سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک شخص کو یہ تلاوت کرتے سنا، إِنَّ لَدَيْنَآ أَنكَالاً وَجَحِيماً ''یقیناََ ہمارے ہاںسخت بیڑیاں ہیں اور سلگتی ہوئی جہنم ہے'' (المزمل: 12) اور آپﷺ یہ سن کر بے ہوش ہو گئے۔ تو صحابہ موت کو اس طرح یاد کرتے تھے۔نبیﷺ نہ صرف خود موت کو یاد کرتے تھے اور اس کے لئے تیار تھے بلکہ انہوں نے ہمیں بھی اس کو یاد کرنے اور اس کی تیاری کرنے کی تلقین کی۔اسی لئے آپﷺ نے قبروں پر جانے اور مُردوں کے لئے دعا کرنے پر زور دیا کیونکہ یہ بہترین یاد دہانی اور بہترین سرزنش ہے۔ابو زر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، زُورُوا الْقُبُورَ فَإِنَّهَا تُذَكِّرُكُمْ الْآخِرَةَ ''قبروں پر جایا کرو کیونکہ یہ آخرت کی یاد دہانی ہے'' (ابن ماجہ: 1558)۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا، أَكْثِرُوا ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ يَعْنِي الْمَوْتَ ''اس چیز کو کثرت سے یاد کرو جو تمام لذتوں کو ختم کرنے والی ہے'' (الترمذی: 2229)۔
لہٰذا آج ہم سب کو سوچنا اور غور کرنا چاہیے، زندگی کے آرام و سکون کا خاتمہ کرنے والی کے بارے میں اور تیاری کرنی چاہیے۔ ہم محنت کریں اوراللہ سبحان وتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ایک لمحہ بھی نہ ضائع کریں۔ہم اپنی تمام ذمہ داریوں کو جاننے اور پورا کرنے کے لئے کوشش کریں۔ ہم تمام محرّمات کو جاننے اور ان سے بچنے کی کوشش کریں۔ ہم اپنی ذاتی زندگیوں اور اس امت کی اجتماعی زندگی میں اسلام کو خلافت کے طور پر استوار کرنے کی کوشش کریں جو اسلام کو نافذ کرے گی، اس کی حفاظت کرے گی اور تمام انسانیت کو اس کے نور سے منوّ کردے گی۔

Read more...

خبر اور تبصرہ: پاکستان کا آئین غیر اسلامی ہے چاہے کتنے ہی فتوے جاری کر دیے جائیں


خبر: پاکستان پیپلز پارٹی کے پیٹرن انچیف بلاول بھٹو زرداری نے 15 فروری 2014، بروز ہفتہ ، طالبان کو بھر پور تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ وہ ملک کو"پتھر کے دور" میں لے جانا چاہتے ہیں۔ اس نے کہا کہ "طالبان ملک میں دہشت گردی کا قانون رائج کرنا چاہتے ہیں لیکن میں انھیں بتادینا چاہتا ہوں کہ اگر تم نے پاکستان میں رہنا ہے تو اس کے آئین کی پیروی کرنا ہوگی"۔
تبصرہ: جب سے راحیل-نواز حکومت اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوا ہے میڈیا میں ایک زبردست بحث شروع ہو گئی ہے کہ آیا پاکستان کا آئین اسلامی ہے یا غیر اسلامی۔ حکومت نے بڑے بڑے علماء سے رابطے کئے اور ان سے فتوے حاصل کئے کہ 1973 کا آئین ایک اسلامی آئین ہے۔ اسی طرح تقریباً ہر اس سیاسی جماعت ، جو اسلام کی دعوت کی علمبرادر ہے، نے بھی اس آئین کو اسلامی آئین قرار دیا بلکہ وہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ گئے اور یہ کہا کہ پاکستان میں شریعت نافذ ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کا موجودہ آئین 1935 کے ایکٹ آف انڈیا اور 1947 کے آزادی ایکٹ کا ہی تسلسل ہے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی اس وقت کی آئین ساز اسمبلی میں یہ بحث شروع ہوگئی تھی کہ کس طرح اس آئین کو اسلامی آئین بنایا جائے۔ اس بحث کے نتیجے میں "قرارداد مقاصد" تشکیل پائی جس کو آئین کا مستقل حصہ بنا دیا گیا۔ اس قرارداد میں یہ کہا گیا کہ اقتدار اعلٰی صرف اللہ ہی کے لیے ہے لیکن اگلے ہی جملے میں قانون سازی کا اختیار پارلیمنٹ کو دے دیا گیا۔ لہٰذا یہ آئین انسانوں کو اپنی خواہشات کے مطابق قانون سازی کا اختیار دیتا ہے نہ کہ یہ آئین اللہ سبحانہ و تعالٰی کے اوامر و نواہی کو قوانین کا ماخذ قرار دیتا ہے۔ موجودہ آئین جمہوری آئین ہے یہ اسلام اور اس کی ریاست خلافت کا آئین نہیں ہے۔
اس بات کو جانتے ہوئے کہ پاکستان کے مسلمان اپنے آباؤ اجداد کے خواب کی تکمیل یعنی اسلام کا نفاذ چاہتے ہیں، ہر حکومت نے اس حوالے سے محض زبانی جمع خرچ ہی کیا ۔ 1973 کے آئین میں (1)227 شق ڈالی گئی کہ کوئی بھی قانون شریعت کے منافی نہیں بنایا جائے گا جبکہ کہا یہ جانا چاہیے تھا کہ قرآن و سنت کے سوا کہیں سے بھی کوئی قانون نہیں لیا جائے گا۔ آئین کی شق228 کے تحت اسلامی نظریاتی کونسل قائم کی گئی جس کا کام قوانین کو اسلامی بنانے کے لئے پارلیمنٹ کو تجاویز دینا ہے۔ اس کونسل کی تجاویز پر عمل کرنا پارلیمنٹ کے لئے لازمی نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ اپنے قیام سے لے کر یہ کونسل اب تک چھ ہزار سے زائد تجاویز دے چکی ہے لیکن کسی ایک کو بھی پارلیمنٹ نے منظور نہیں کیا۔ اسی طرح آئین کی شق (1)D203 کے تحت وفاقی شرعی عدالت قائم کی گئی لیکن یہ عدالت آئینی مقدمات کو سن ہی نہیں سکتی اور اس کے فیصلوں کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کا قیام ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ باقی عدالتیں غیر شرعی ہیں۔
پاکستان کے عوام اب یہ جانتے ہیں کہ موجودہ آئین اور اس کے تحت قائم یہ پورا نظام غیر اسلامی ہے۔ وہ یہ اس لئے جانتے ہیں ہیں کیونکہ اس آئینی جمہوریت کے تحت سود حلال ہے، دولت کے ارتکاز میں اضافہ ہورہا ہے، عریانی و فحاشی کو فروغ دیا جارہا ہے، عدالتوں میں سالوں بلکہ دہائیوں تک مقدمات چلتے رہتے ہیں اور پھر بھی انصاف نہیں ملتا، غریبوں پر ٹیکسوں کی بھرمار کر کے ان کی کمر توڑ دی گئی ہے ، امت کے اثاثوں کو نجی ملکیت میں دیا جارہا ہے، جان اور مال کا کوئی تحفظ نہیں اور کافر حربی ممالک کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ فوجی اڈے، سفارت خانے، انٹیلی جنس دفاتر قائم کریں اور اپنی سازشوں کو عملی جامع پہنائیں۔
اس صورتحال میں امت صرف اور صرف اسلام کو ہی اپنا نجات دہندہ سمجھتی ہے اور اسلام کے قیام کی خواہش دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔ یہ کفار اور ان کے ایجنٹوں کا دھوکہ ہے کہ اگر آپ کے پاس پارلیمنٹ میں اکثریت ہے تو سینکڑوں آئینی دفعات اور ہزاروں قوانین کو ایک ایک کر کے اسلامی بنالیں۔ وقت کی ضرورت ایک انقلابی تبدیلی ہے ۔ لہٰذا جمہوریت اور اس کے آئین کی منسوخی اور اسلام کا مکمل اور فوری نفاذ انتہائی ضروری ہے۔ اور ایسا صرف ریاست خلافت کے قیام کے ذریعے سے ہی ہوگا۔

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ دنیا مؤمن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لئے جنت ہے. مسلم: 5256

 

تحریر: مصعب عمیر، پاکستان
یقیناً دنیا مؤمن کے لئے قید خانہ ہے کیونکہ جب وہ جنت کو اس کی تمام تر آسائشوں کے ساتھ دیکھتا ہے تو وہ محسوس کرتا ہے کہ یہ دنیا اپنی تمام تر محدود آرائشوں اور ختم ہو جانے والی لذتوں کے ساتھ ایک قید خانے کی طرح حقیر ہے۔ اور یقیناً جب کافر جہنم کا سامنا ایک ہمیشہ کی قیام گاہ، ناقابل تسخیر اسیری، شدید سزا اور ایسی تکلیف جس سے کبھی نجات نہیں ملے گی تو وہ سوچے گا کہ اس کی دنیاوی زندگی اپنی تمام مشکلات، آزمائشوں اور امتحانات کے باوجود بھی جنت تھی۔ لہٰذا وہ دن جب ہمیں اٹھایا جائے گا اور فیصلے کے لئے پیش کیا جائے گا، یہ سب وہ معاملات ہیں جن پر اگر ایسے غور کیا جائے جیسے ان کا حق ہے تو یہ روح کو لرزا دیتے ہیں اور آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔رسول اللہﷺ نے کہا: لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا وَلبَكَيْتُمْ كَثِيرًا "اگر تمہیں وہ پتہ چل جائے جومجھے معلوم ہے تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ" (بخاری: 986)۔
کیا سخت امتحان ہوگا۔ فیصلوں کے فیصلے کے وقت صور کی دوسری پھونک ہم سب کو اپنی قبروں سے جگا دے گی۔ اس روز تمام جاندار انسان، جن اور جانور جمع کیے جائیں گے اور وہ پسینے میں شرابور ہوں گے جب چھپنے کے لئے کوئی ٹھکانا نہ ہوگا۔ سزا کی شدت اور اس کے خوف سے لوگ پسینے میں بھیگے ہوئے ہونگے جس کی وضاحت رسول اللہﷺ نے اس طرح سے کی: يَعْرَقُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يَذْهَبَ عَرَقُهُمْ فِي الْأَرْضِ سَبْعِينَ ذِرَاعًا وَيُلْجِمُهُمْ حَتَّى يَبْلُغَ آذَانَهُمْ "قیامت کے روز لوگوں کا پسینہ اس طرح چھوٹے گا کہ وہ زمین میں ستر ہاتھوں کی گہرائی تک چلا جائے گا۔ یہاں تک کہ وہ ان کے کانوں تک پہنچ جائے گا" (بخاری: 6051)۔
یہ دن 50 ہزار سالوں کا ہوگا جس میں ہر شخص سے سوالات کئے جائیں گے۔ وہ دن جسے اللہ سے بے خوف لوگ خود سے بہت دور دیکھتے ہیں لیکن اللہ اسے قریب دیکھتا ہے۔ اللہ تعالی اپنی کتاب، جو کہ معمولی غلطی سے بھی پاک ہے، میں فرماتے ہیں: تَعْرُجُ الْمَلَـئِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِى يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ - فَاصْبِرْ صَبْراً جَمِيلاً - إِنَّهُمْ يَرَوْنَهُ بَعِيداً - وَنَرَاهُ قَرِيباً "جس کی طرف فرشتے اور روح چڑھتے ہیں ایک دن میں، جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے۔ پس تو اچھی طرح صبر کر۔ بیشک یہ اس (عذاب) کو دور سمجھ رہے ہیں۔ اور ہم اسے قریب دیکھتے ہیں" (سورة المعارج: 4-7)۔
کوئی بہانہ نہیں چلے گا اور ہر چیز کی جانچ کی جائے گی چاہے چھوٹی ہو یا بڑی۔ پھر میزان لگایا جائے گا جس میں ہر شخص کے اچھے اور برے اعمال کا وزن ہوگا۔ اور جب جہنم ہمارے سامنے ہوگی تو ہم سب تمنا کریں گے کہ کاش ہم اس سے زیادہ جدوجہد کرتے جتنی ہم نے کی تاکہ سزا سے محفوظ رہتے۔رسول اللہﷺنے فرمایا: مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا سَيُكَلِّمُهُ اللَّهُ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ تُرْجُمَانٌ فَيَنْظُرُ أَيْمَنَ مِنْهُ فَلَا يَرَى إِلَّا مَا قَدَّمَ وَيَنْظُرُ أَشْأَمَ مِنْهُ فَلَا يَرَى إِلَّا مَا قَدَّمَ وَيَنْظُرُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَلَا يَرَى إِلَّا النَّارَ تِلْقَاءَ وَجْهِهِ فَاتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ "قیامت کے دن تم میں سے کسی کے پاس بھی اپنے اور اللہ کے بیچ کوئی ترجمان نہ ہوگا، وہ اپنے دائیں دیکھے گا تو کچھ نہیں پائے گا لیکن وہ جو اس نے کمایا، اور اگر وہ اپنے بائیں دیکھے گا تو وہ کچھ نہیں دیکھے گا سوائے اس کے جو اس نے کمایا۔ پھر اپنے آگے دیکھے گا وہ آگ کے سوا کچھ نہیں پائے گا۔ تو تم میں سے ہر کوئی اپنے آپ کو آگ سے بچائے خواہ یہ آدھی کھجور کے صدقے سے ہی کیوں نہ ہو " (صحیح مسلم: 1688)۔
جہنم سرکشوں کے لئے گھات لگائے بیٹھی ہے۔ ایسی ہے جہنم جس کے بارے میں ہمیں ڈرنا چاہئے۔ اس دن جب کسی ملامت کرنے والے کی آہ وزاری نہیں سنی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِىَ الاٌّمْرُ وَهُمْ فِى غَفْلَةٍ وَهُمْ لاَ يُؤْمِنُونَ "اور ان کو حسرت و افسوس کے دن سے ڈراؤ، جب فیصلہ ہو چکا ہوگا اور (ابھی) وہ غفلت میں پڑے ہوتے ہیں اور ایمان نہیں لاتے" (سورة مریم: 39)۔
آخر میں ایک راستے سے گزرنا ہے جسے پل صراط بھی کہتے ہیں۔ یہ آگ کے اوپر ایک پل ہے جس سے ہر شخص کو گزرنا ہے۔ گناہ گاروں کے لئے یہ پل بال کی طرح باریک اور تیز ترین تلوار کی طرح ہے۔ گناہ گار آگ میں گر جائیں گے اور اپنی آخری قیام گاہ 'جہنم ' پہنچ جائیں گے۔ اور جو اس میں گر جائیں گے وہ آگ میں جلیں گے اور جہنم کی سب سے نرم سزا بھی اس دنیا کی شدید سے شدید مصیبت سے بڑھ کر ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: إِنَّ أَهْوَنَ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ رَجُلٌ عَلَى أَخْمَصِ قَدَمَيْهِ جَمْرَتَانِ يَغْلِي مِنْهُمَا دِمَاغُهُ "قیامت کے دن جہنم کے لوگوں میں سے جس شخص کو سب سے معمولی آگ کا عذاب ہوگا وہ وہ شخص ہوگا جس کے پاؤں کے نیچے دو دہکتے ہوئے انگارے رکھے جائیں گے جس سے اس کا دماغ اُبل رہا ہوگا " (بخاری: 1699)۔
اے اللہ! رحمان اور رحیم! ہمیں آخرت کے عذاب سے بچا جو تو نے نا فرمان اور کفر کرنے والوں کے لئے تیار کر رکھا ہے۔ جب ہم آپ کی یاد دہانیاں پڑھتے ہیں تو ہماری آنکھیں خوف سے پھٹ جاتی اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں !
كَلاَّ بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَّا كَانُواْ يَكْسِبُونَ ـــ كَلاَّ إِنَّهُمْ عَن رَّبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ ـــ ثُمَّ إِنَّهُمْ لَصَالُواْ الْجَحِيمِ ـــ ثُمَّ يُقَالُ هَـذَا الَّذِى كُنتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ
"کوئی نہیں! بلکہ ان کے دلوں پر زنگ بیٹھ گیا ہے ان کے اعمال کا - بیشک یہ لوگ اس روز اپنے رب کے دیدار سے محروم رہیں گے - پھر یہ لوگ دوزخ میں چلے جائیں گے - پھر ان سے کہا جائے گا یہ وہی ہے جس کو تم جھٹلاتے تھے" (سورۃ المتففین: 14-17) ۔
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِـَايَـتِنَا سَوْفَ نُصْلِيهِمْ نَاراً كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْنَـهُمْ جُلُوداً غَيْرَهَا لِيَذُوقُواْ الْعَذَابَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَزِيزاً حَكِيماً
"جن لوگوں نے ہماری آیات کا انکار کیا ہم یقینا انہیں دوزخ میں جھونک دیں گے۔ جب بھی ان کے جسموں کی کھال گل جائے گی تو ہم دوسری کھال بدل دیں گے تاکہ عذاب کا مزا چکھتے رہیں۔ بے شک اللہ تعالیٰ زبردست اور حکمت والا ہے'' (سورة النساء: 56)۔
ھٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِيْ رَبِّهِمْ فَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِّنْ نَّارٍ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوْسِهِمُ الْحَمِيْمُ ـــ يُصْهَرُ بِهٖ مَا فِيْ بُطُوْنِهِمْ وَالْجُلُوْدُ
"یہ دو فریق ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کے بارے میں جھگڑا کیا ان میں سے جنہوں نے کفر کیا ان کے لئے آگ کے کپڑے کاٹے جائیں گے اور ان کے سروں پر اوپر سے کھولتا پانی ڈالا جائے گا۔جس سے ان کی کھالیں گل جائیں گی اور وہ کچھ بھی جو ان کے بطنوں میں ہے'' (سورةالحج: 19-20) ۔
وَتَرَى الْمُجْرِمِيْنَ يَوْمَىِٕذٍ مُّقَرَّنِيْنَ فِي الْاَصْفَادِ ــ سَرَابِيْلُهُمْ مِّنْ قَطِرَانٍ وَّتَغْشٰى وُجُوْهَهُمُ النَّارُ
''اور تم دیکھو گے اس دن گناہ گار لوگ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہوں گے۔ ان کے کُرتے گندھک کے ہونگے اور ان کے چہروں کو آگ لپیٹ رہی ہوگی'' (سورة ابراہیم: 49-50)۔
وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِيْنُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَهُمْ فِيْ جَهَنَّمَ خٰلِدُوْنَ ـــ تَلْفَحُ وُجُوْهَهُمُ النَّارُ وَهُمْ فِيْهَا كٰلِحُوْنَ
''اور جس کا نیکی کا پلّہ ہلکا ہوگا تو یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنا نقصان کیا، وہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔ آگ ان کے منہ کو جھلسا دے گی اور ان کے منہ بگڑے ہوں گے'' (سورة المؤمنون: 103-104) ۔
يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُوْلُوْنَ يٰلَيْتَنَآ اَطَعْنَا اللّٰهَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلَا ـــ وَقَالُوْا رَبَّنَآ اِنَّآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاۗءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِيْلَا ـــ رَبَّنَآ اٰتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِيْرًا
''جس روز ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کئے جائیں گے وہ کہیں گے کاش ہم اللہ کے فرمانبرداری کرتے اور رسول کی اطاعت کرتے۔ اور وہ یہ بھی کہیں گے کہ ہم نے اپنے سرداروں اور بڑے لوگوں کا کہا مانا تو انہوں نے ہم کو سیدھے راستے سے گمراہ کر دیا۔ اے ہمارے رب! تو انہیں دگنا عذاب دے اور ان پر بڑی لعنت کر'' (سورة الاحزاب: 66-68) ۔
اے اللہ ، الجبار، العزیز! تو ہمیں اپنی اطاعت میں جدوجہد کرنے والا بنا، کہ ہم تیرے اوامر کو مضبوطی سے تھامنے والے ہوں اور ان چیزوں سے سختی سے اجتناب کریں جن کو تو نے منع فرمایا۔ ہم کبھی بھی اس دنیا میں تیرے دین کے قیام کی فرضیت سے دست بردار ہونے والے نہ ہوں بلکہ اس کے لئے ایسی جدوجہد کریں کہ جیسا کہ اس کا حق ہےاور ہم اس دین کو ریاست خلافت کی شکل میں سرداری و سربلندی کے مقام پر پہنچا دیں۔

Read more...

مستقبل میں معاشی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان لازماً امریکہ سے اپنے تعلقات کو ختم کردے


تحریر: عابد مصطفی
حالیہ دنوں میں پاکستان کے کئی معروف لوگوں نے پاکستان کی معیشت اور اس کے مستقبل کے حوالے سے قوم کو اچھی امید دلائی ہے۔ 10نومبر 2013 کو پاکستان کے وزیر خزانہ محمد اسحاق ڈار نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت دنیا کی گیارہویں بڑی معیشت بن جائے۔ 2012 میں جاری ہونے والی ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق اس پاکستان کی معیشت 231بلین ڈالر کی کل قومی پیداوار کے ساتھ دنیا میں ترتالیسویں (43) نمبر پر ہے جبکہ کینیڈا کی معیشت 1800بلین ڈالر کی کل قومی پیداوار کے ساتھ دنیا میں گیارہویں نمبر پر ہے۔
اسحاق ڈار کے اس اعتماد سے بھر پور بیان کی تائید کچھ دنوں کے بعد وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، تعمیرات و اصلاحات احسن اقبال نے بھی کی۔ 12 نومبر 2013 کو امریکہ کی ہاروڈ یونیورسٹی میں ایک لیکچر دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ "پروگرام پاکستان 2025 پاکستان کو ایک مضبوط معیشت کے حامل ملک میں تبدیل کردے گا اور اس کا شمار اپر مڈل انکم والے ممالک میں ہونے لگے گا"۔ انھوں نے مزید کہا کہ "خطے کے ممالک کو جوڑنے والے منصوبوں کے ذریعے پاکستان خطے کے ممالک کو جوڑنے والے ممالک کا مرکز بناجائے گا، ہم ایشیا میں تین ارب نئی مارکٹیں پیدا کرسکیں گے جس میں جنوبی ایشیا، چین اور وسطی ایشیا شامل ہوں گے جو عالمی معیشت کے لیے زبردست مواقع پیدا کریں گی"۔ ایسا لگتا ہے کہ اسحاق ڈار اور احسن اقبال دونوں یہ بلند بانگ معاشی دعوے اس منصوبے کی بنیاد پر کر رہے ہیں جس کا عنوان ہے "پاکستان اکیسویں صدی میں: وژن 2030"۔ اس منصوبے کو پلاننگ کمیشن آف پاکستان نے تیار کیا ہے۔ اس منصوبے میں معاشی وژن کو اس طرح اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ "سات سے آٹھ فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھتی معیشت کے ساتھ پاکستان اس بات کی امید رکھتا ہے کہ وہ مڈل انکم والے ممالک کی فہرست میں شامل ہوجائے گا اور اس کی کل قومی پیداوار 2030تک 4000بلین ڈالر ہوجائے گی۔ یہ تیز ترین شرح پیداوار انسانی وسائل اور تعمیراتی اور ٹیکنالوجیکل سہولیات کو بہتر بنا کر حاصل کی جائے گی"۔
ایک الگ مگر اس سے متعلق منصوبے میں حکومت پاکستان نے 2025کے پاکستان کے لیے مختلف توانائی کے وسائل کو استعمال کرنے کے حوالے سے ایک ورکنگ گروپ کے اجلاس کا افتتاح کیا۔ 14نومبر 2013 کو اس گروپ نے سیکریٹری برائے منصوبہ بندی، تعمیرات و اصلاحات حسن نواز تارڑ کی قیادت میں اجلاس منعقد کیا جس میں کئی ممتاز سکالرز، ماہرین اور سائنسدانوں نے شرکت کی۔ اس ورکنگ گروپ کا فوری ہدف پاکستان کے سنگین توانائی کے بحران کو حل کرنا ہے۔ سینئر چیف برائے توانائی فرخند اقبال نے اپنے ابتدائی کلمات میں کہا کہ ملک اس وقت سنگین مسائل کا سامنا کررہا ہے، ہمارے کارخانے بند ہورہے ہیں، برآمدات کم ہورہی ہیں اور اوسط فی کس آمدنی کم ہورہی ہے۔ مختصراً انھوں نے کہا کہ معیشت کا توانائی والا حصہ ملک میں توانائی کی کمی کی بنا پر بری طرح سے متا ثر ہو رہا ہے۔ انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ گیارہواں پانچ سالہ منصوبہ(18-2013) اور وژن 2025ماضی کے منصوبوں کی طرح نہیں ہونے چاہیے بلکہ انھیں حقیقت پر مبنی ہونا چاہیے، جو انتہائی ضروری ہوں اور جنھیں مکمل بھی کیا جاسکے تاکہ اگلی دہائی کے لیے جو شرح پیداوار حاصل کرنا چاہتے ہیں اسے حاصل کیا جاسکے اور پاکستان کی معیشت کو ایک ایسی معیشت میں تبدیل کیا جاسکے جس کی بنیاد صنعتی علوم پر ہو۔
پاکستان کی دم توڑتی معیشت اور سنگین توانائی کے بحران کو حل کرنے کے حوالے سے موجودہ حکومت بھی پچھلی حکومتوں سے مختلف نہیں ہے۔ اب تک ان مسائل کو حل کرنے میں کوئی بھی حکومت کامیاب نہیں ہوئی ہے اور اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ موجودہ نواز شریف کی حکومت کوئی زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکے گی۔ اس وژن کی جزئیات کو پڑھے بغیر بھی یہ بات واضح ہے کہ اس میں ایک مسئلہ ہے اور وہ یہ کہ حکومت کس وژن کو اختیار کررہی ہے ،آیا وہ وژن 2025 ہے جسے فرخند اقبال ، اسحاق ڈار اور احسن اقبال نے تیار کیا ہے یا وژن 2030 جسے منصوبہ بندی کمیشن نے تیار کیا ہے۔ شاید کوئی اس صورتحال کو حکومتی وزارتوں کے درمیان روابط کا فقدان کہے لیکن موجودہ صوتحال کی سنگینی کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کیونکہ اگر حکومتی وزارتوں کے درمیان روابط کمزور ہوں گے تو ان منصوبوں پر عمل درآمد کی شروعات بھی کمزور ہونگی اور یہ صورتحال ملک کے مستقبل کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔
وژن کے علاوہ بھی حکومت اب تک ایسی واضح اور بھر پور حکمت عملی بنانے میں ناکام رہی ہے جو وژن 2030 کو کامیاب بنانے کے لیے درکار ہے۔ مثال کے طور پر اس حوالے سے حکومت کی کیا حکمت عملی ہے جو وژن میں بیان کیے گئے اس ہدف کہ "پاکستان اس بات کی امید رکھتا ہے کہ وہ مڈل انکم ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائے گا اور اس کی کل قومی پیداوار 2030 تک 4000 بلین ڈالرہوجائےگی"، کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے۔ منصوبہ بندی کمیشن کی جانب سے جاری کیے جانے والےوژن2030کی دستاویز اور سیاست دانوں کے عوامی بیانات نہ صرف افسوس ناک حد تک کمزور ہیں بلکہ یہ بات انتہائی اعتماد سے کہی جاسکتی ہے کہ یہ وژن وہی پرانی شراب ہے جسے مغربی معاشی ماہرین اور اداروں نے تیارکیا ہے جیسا کہ آئی۔ایم۔ایف، اور پھر اسے پاکستان کی عوام کے سامنے پیش کردیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ، 4اکتوبر 2013 کو ایک اخبار "دی نیشن" نے یہ بات رپورٹ کی کہ حکومت نےموجودہ مالی سال 14-2013 میں اکتیس(31) حکومتی اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کرلیا ہے اور اس میں بینکنگ، پیٹرولیم اور توانائی کے شعبوں کی کمپنیاں شامل ہیں۔ اس فیصلے کے بدلے میں پاکستان نے آئی۔ایم۔ایف سے تقریباً ساڑھے چھ ارب ڈالر کا قرضہ حاصل کرلیا۔
پاکستان کی معاشرتی ترقی کے لیے اس کی اہم ترین اور قیمتی اداروں کو بیچ دینے کی یہ حکمت عملی معیشت کی تباہی اور مغربی اداروں کی غلامی اختیار کرنے کا نسخہ ہے۔ نجکاری کے فوائد صرف غیر ملکی ہی حاصل کرتے ہیں اور اس حقیقت کو جاننے کے لیے مشرف اور زرداری کے ادوار میں کی جانے والی نجکاری کو دیکھنا ہی کافی ہے۔ ان غیر ملکیوں کو اس بات کی اجازت ہوتی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے قیمتوں کا تعین کریں ، انتہائی کم ٹیکس یا کوئی ٹیکس ہی نہ دیں اور منافعوں کو اپنے ملک بھیج کر پاکستان کی معیشت کو کمزور کرنے کی قیمت پر اپنے ممالک کی معیشتوں کو مضبوط کرتے رہیں ۔ یہ نقصان اس مالی بدعنوانی کے علاوہ ہے جو اس نجکاری کے عمل کے دوران لازمی پاکستان کے سیاست دانوں کواپنے گھیرے میں لے لیتی ہے۔ کچھ لوگوں نے صرف مشرف کے دور میں ہونے والی نجکاری کے دوران 1550ارب روپے کی مالی بدعنوانی کا اندازہ لگایا ہے ("پاکستان: مشرف کے دور میں نجکاری کے دوران 24ارب ڈالر کی بدعنوانی"، ایشیا پیسیفک ایکشن آن لائن)۔
لہٰذا یہ ظاہر ہوتا ہے کہ گیارہواں پانچ سالہ منصوبہ بھی اسی سمت میں رواں دواں ہےجس جانب پچھلے پچپن سال کے منصوبے گامزن تھے یعنی پاکستان کی معاشی خودمختاری کو کمزور اور ہمارے پچوں کو ایک تابناک مستقبل سے محروم کردیا جائے۔ اس کے علاوہ اس قسم کی حکمت عملی سے پاکستان 58ارب ڈالر کے بیرونی قرضے بھی ادا نہیں کرسکتا اور نہ ہی 2030 تک اپنی معیشت کو اس قدر ترقی دے سکتا ہے کہ وہ 230سے 260ملین پاکستان کی آبادی کی ضروریات کو پورا کرسکے۔
پاکستان کے لیے کسی بھی معاشی وژن اور حکمت عملی کے لیے ضروری ہے کہ وہ وژن اور حکمت عملی ملک کی معیشت کو درپیش موجودہ مسائل کی بنیادی وجوہات کا تعین کرے۔ کوئی بھی ایسا حل جو موجودہ مسائل کی بنیادوں کو نظر انداز کردے کبھی بھی ملک کو معاشی خودمختاری کی منزل کی جانب گامزن نہیں کرسکتا۔
پاکستان کی بدحال معیشت کے پس پردہ تین عوامل ہیں: امریکہ، اس کے استعماری ادارے آئی۔ایم۔ایف اور ورلڈ بنک اور خوفناک بدعنوانی۔ آئیے ان تین عوامل کا فرداً فرداً جائزہ لیں۔
جب سے امریکہ نے یوریشیا کے خطے میں عملی مداخلت شروع کی ہے خصوصاً افغانستان پر سویت یونین کے حملے کے بعد، پاکستان کی معیشت درجہ بہ درجہ زوال پزیر ہوتی گئی ہے۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے لیکن اس کا اقرار سرکاری دستاویزات یا معاشی رپورٹوں میں نہیں کیا جاتا کیونکہ پاکستان کی اشرافیہ خودکشی پر مبنی امریکہ کے ساتھ کام کرنے اور اس کی خدمت گزاری کی پالیسی کو جاری رکھنا چاہتی ہے۔ پاکستان حکام اس حقیقت کو چھپانے کی کتنی ہی کوشش کیوں نہ کریں لیکن یہ حقیقت چُھپ نہیں سکتی اور وہ کبھی کبھی اس حقیقت کو ظاہر کردیتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں، وزیر مملکت برائے شمالی علاقہ جات عبدالقدیر بلوچ نے کہا کہ تیس سالوں میں پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کی دیکھ بحال پر 200ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔ اٖفغان مہاجرین کا مسئلہ واضح طور پر پاکستان کو سرد جنگ کے زمانے میں سویت یونین کے خلاف استعمال کرنے کا نتیجہ ہے۔
اسلام کے احکامات کے مطابق پاکستان نے اپنے افغان بھائیوں کی بہترین خدمت کی لیکن امریکہ نے اس حوالے سے پچھلے تیس سالوں میں پاکستان کی بہت کم مدد کی۔ حالیہ دنوں میں خود ساختہ بین الاقوامی برادری کی جانب سے شروع کی گئی مہم کے نتیجے میں بھی بہت ہی کم رقم جمع کی گئی۔ بین الاقوامی امداد فراہم کرنے والوں نے افغان مہاجرین کے لیے 600ملین ڈالر کا وعدہ کیا لیکن محض 15 ملین ڈالر ہی مہیا ہوسکے۔ لہٰذا ایک بار پھر پاکستان خود ہی اپنے افغان بھائیوں کی ذمہ داری کو اٹھاتا رہے گا جبکہ پاکستان سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے اپنے شہریوں کی بنیادی ضروریات بھی پورا نہیں کرسکتا۔
اکیسویں صدی کی ابتداء میں امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اسلام کے خلاف ایک نئی جنگ کا آغاز کردیا۔ اس جنگ کا مرکزی محاذ پاکستان تھا اور اس کے اثرات ملک پر انتہائی خوفناک تھے خصوصاً ملک کی معیشت پر۔ 23 اکتوبر 2013 کو جیو ٹی وی نے بتایا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نے پاکستان کو 100ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے۔ اس نقصان کے بدلے پاکستان کو 12-2002کے درمیان 25 ارب ڈالر ملے جس میں 17ارب ڈالر فوجی امداد اور 8 ارب ڈالر معیشت کو سنوارنے کے نام پر دیے گئے۔ اس امدادی پیکیج کی اہمیت انتہائی کم ہوجاتی ہے جب اس کو 66سال کے عرصے پر پھیلا دیا جائے۔ 1948سے 2012 تک پاکستان نے امداد کے نام پر 68 ارب ڈالر وصول کیے۔ اس امداد میں 42 ارب ڈالر معیشت کے لیے جبکہ باقی 26 ارب ڈالر فوجی امداد کے نام پر دیے گئے۔ لیکن درحقیقت اس امداد کا کوئی فائدہ نہ ہوسکا کیونکہ اس عرصے کے دوران امریکہ پاکستان پر معاشی پابندیاں بھی عائد کرتا رہا۔ سب سے پہلے 1979 میں امریکہ نے پاکستان پر پابندیاں عائد کیں۔ پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ برائے بین الاقوامی معیشت نے 1979 سے 1998 تک ان پابندیوں کے اثرات کو جمع کیا جو 1 ارب ڈالر کے برابر تھا اور یہ نقصان اس نقصان سے کئی گنا چھوٹا ہے جو پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کو امریکی مفادات کے تابع کرنے کی بنا پر اٹھانا پڑا ہے۔
پاکستان کی معیشت کو تباہی و بربادی سے دوچار کرنے کی دوسری بڑی وجہ امریکی نگرانی میں بننے والی آئی۔ایم۔ایف اور ورلڈ بینک کی پالیسیاں ہیں۔ 1971 سے 2010کے درمیانی چالیس سالوں میں سے 29 سالوں میں پاکستان نے آئی۔ایم۔ایف سے بھاری قرضے حاصل کیے ہیں۔ اس وقت پاکستان کا بیرونی قرضہ تقریباً 58ارب ڈالر ہے یعنی کل قومی پیداوار کا 24فیصد اور برآمدات کا 200 فیصد۔ آئی۔ایم۔ایف اور ورلڈ بینک یہ کہتے ہیں کہ کم آمدنی والے ممالک کے لیے قرضے ادا کرنا تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے اگر ان کے قرضے ان کی کل قومی پیداوار کا 30 سے 50 فیصد تک پہنچ جائیں یا 100 سے 200 فیصد برآمدات کے برابر ہوجائیں۔ لیکن اس کے باوجود آئی۔ایم۔ایف اپنے ہی جاری کردہ انتباہ (warnings) کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کو اب بھی اربوں ڈالر کے مزید قرضے دینے کے لیے راضی ہے۔
درحقیقت پاکستان کے عوام آئی۔ایم۔ایف اور ورلڈ بینک کے حکام کے دوروں کے بعد نازل ہونے والے معاشی بحرانوں کا سامنا کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ عام طور سے پاکستان کے لیے جو نسخہ آئی۔ایم۔ایف پیش کرتا ہے وہ یہ کہ نجکاری ، پیٹرول ، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ، روپے کی قدر میں کمی، سیلز ٹیکس کے نفاذ کے ذریعے محصولات میں اضافہ، درآمدات پر عائد ٹیکسوں میں کمی کی جائے ۔ اس کے علاوہ بھی جو بھی اقدامات تجویز کیے جاتے ہیں ان تمام سے پاکستان کی بیرونی امدادا فراہم کرنے والے اداروں اور ممالک پر انحصار اور قرضوں میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ اگر سادہ الفاظ میں بیان کیا جائے تو آئی۔ایم۔ایف کی پالیسیاں کبھی بھی پاکستان کے مالیاتی خسارے کو ختم کرنے اور ادائیگیوں کے توازن کو درست کرنے میں مددگار ثابت نہیں ہوئی ہیں۔ آئی۔ایم۔ایف کی پالیسیاں صرف یہ کام کرتی ہیں کہ وہ قرضہ لینے والے ملک سے اس بات کا اقرار کروالیتی ہیں کہ وہ مزید قرضوں کا بوجھ اور اس پر ادا ہونے والے سود کو برداشت کرے گا۔ پچھلے پانچ سالوں میں اوسطاً پاکستان بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں پر سوا دو ارب ڈالر خرچ کرتا رہا ہے۔ یہ رقم پاکستان کی برآمدات کے 10فیصد اور محاصل کے 10فیصد کے برابر ہے اور تعلیم اور صحت پر خرچ ہونے والی رقم کا نصف ہے ("قرضے کی زنجیروں سے نجات: پاکستان کے لیے قرضوں میں نرمی"، اسلامک ریلیف اینڈ جوبلی ڈیٹ کیمپین، جولائی 2013)۔
اور آخر ی بات، امریکی سرپرستی میں پاکستان میں کرپشن نے دن دُگنی اور رات چوگنی ترقی کی ہے۔ اس حوالے سے سیاسی و فوجی حکومت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ہر اس حکومت میں کرپشن نے فروغ حاصل کیا ہے جسے براہ راست امریکی آشیر باد حاصل رہی ہے۔ مثال کے طور پر ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان ناقابل یقین 8500ارب روپے کی رقم سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔ یہ رقم کرپشن، ٹیکس کی چوری اور بری حکمرانی کے نتیجے میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے چار سالہ دور اقتدار کے دوران کھو دی گئی۔
خلاصہ یہ ہے کہ 1979 سے پاکستان کی امریکہ کو بے لوث حمائت فراہم کرنے کے نتیجے میں اس کی معیشت کو 410 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ پاکستان میں موجود انتہا پسند آزاد خیال اور بنیاد پرست سیکولر حضرات کو بھی اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ پاکستان کی معاشی خود مختاری میں مسلسل اور تیز رفتار کمی کی واحد وجہ پاکستان کے امریکہ سے تعلقات ہیں۔
اگر پاکستان کی معیشت کو بڑھوتری اور خودانحصاری کی راہ پر ڈالنا ہے تو معاشی پالیسی سازوں کو امریکہ سے تعلقات کو توڑنا ہو گا اور ایسا وژن 2030 بنانا ہوگا جس میں امریکہ اور اس کے استعماری اداروں کاکوئی کردار نہ ہو۔ لیکن یہ صرف پہلا قدم ہوگا۔ ایک مکمل اور مستقل حل کے لیے ضروری ہے کہ جمہوریت اور آمریت سے جان چھڑائی جائے جو انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کو نافذ کرتی ہیں اور انھیں اللہ کے قوانین پر فوقیت دیتی ہیں۔ ان طرز حکمرانی کے ذریعے امریکہ پارلیمنٹ اور انتظامیہ میں موجود اپنے حمائتیوں کے ذریعے ایسے قوانین منظور کرواتا ہے جو سرمایہ داریت پر مبنی ہوتے ہیں اور جو صرف امریکہ کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ یہ ہے وہ اصل وجہ جس کی بنا پر پاکستان کے عوام اس بدحالی کا شکار ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں: وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا "اور جوکوئی اس ذکر (قرآن) سے منہ موڑے گا اس کی زندگی تنگ کردی جائے گی" (طحہ:124)۔
اور صرف خلافت کے ذریعے ہی اقتدار اعلی اور حاکمیت اللہ کی جانب دوبارہ لوٹا دی جائے گی اور امریکہ مفادات کی طابع سرمایہ دارانہ پالیسیوں کا دور ختم ہوجائے گا۔

Read more...

خطے میں امریکی راج کو مستحکم کرنا اللہ، اس کے رسول ﷺ اور ایمان والوں سے خیانت ہے

تحریر: شہزاد شیخ
(پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان)
تاریخ:17جنوری 2014
خبر: 10 جنوری 2014 بروز جمعرات، کراچی میں ایک پولیس آفیسر چوہدری اسلم کو ایک بم دھماکے میں قتل کردیا گیا۔ اس پولیس آفیسر نے پچھلے چند سالوں میں کراچی میں کئی مبینہ قبائلی عسکریت پسندوں کو گرفتار کرنے اور ان میں سے چند ایک کو پولیس مقابلوں میں مارنے کے حوالے سے کافی شہرت حاصل کی تھی۔اس قتل کے فوراً بعد راحیل-نواز حکومت کے چمچوں نے اس پولیس آفیسر کو "شہید" قرار دے دیا اور قبائلی عسکریت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن آپریشن کی بحث شروع کردی گئی۔ اس کے ساتھ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار فوج کے سربراہ نے ایک پولیس آفیسر کے قتل پر تعزیتی پیغام جاری کیا اور اس کی قبر پر فوج کے سربراہ کی جانب سے پھولوں کی چادر چڑھائی گئی۔

تبصرہ: کراچی میں 2000 سے لے کر اب تک کئی پولیس افسران کو قتل کیا جاچکا ہے۔ ان قتل کیے جانے والے پولیس افسران میں اکثریت ان کی ہے جنھوں نے نوے کی دہائی میں ایک سیاسی جماعت کے خلاف آپریشن میں کلیدی کردار ادا کیا تھا، لیکن آج تک ان میں سے کسی پولیس آفیسر کے قتل کے خلاف حکومتی گماشتوں نے نہ تو انھیں شہید قرار دیا، نہ ان کے قاتلوں کے خلاف کسی بھر پور آپریشن کی بحث شروع کی اور نہ ہی فوج کے سربراہ کی جانب سے باضابطہ طور پر آئی.ایس.پی.آر کی جانب سے تعزیتی پیغام جاری کیا گیا۔ چوہدری اسلم کے قتل کے بعد جس طرح کراچی میں سوات طرز کے فوجی آپریشن کی بحث شروع کی گئی ہے وہ اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ اس قتل کا مقصد نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کو پاکستان کے شہروں تک پھیلانے کے لیے رائے عامہ ہموار کرنا ہے۔
جب سے امریکی ہدایت پر حکومت اور قبائلی عسکریت پسندوں کے درمیان مذاکرات کا اعلان ہوا ہے فوج، پولیس، سیاست دانوں اور شہری و فوجی تنصیبات پر حملوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ قبائلی علاقوں کے مسلمانوں سے مذاکرات کا مقصد پاکستان میں امن کا قیام قطعاً نہیں ہے بلکہ افغانستان سے محدود امریکی انخلاء کے منصوبے پر قبائلی مسلمانوں کو قائل کرنے کے لیے مجبور کرنا ہے۔ اس مقصد میں امریکہ کو کامیاب کروانے کے لیے، راحیل-نواز حکومت ایک طرف تو مختلف سیاسی، مذہبی اور سابق فوجی شخصیات کو قبائلی مسلمانوں کے پاس بھیج رہی ہے جو بظاہر امریکہ مخالف ہونے کی شہرت رکھتے ہیں تا کہ انھیں امریکی منصوبے پر قائل کرنے کی کاشش کریں جبکہ دوسری جانب راحیل-نواز حکومت نے ایسے عناصر کو کھلی چھوٹ فراہم کررکھی ہے جو ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کے ساتھ مل کر کام کرسکیں اور وہ فوجی و شہری تنصیبات پر حملے کرسکیں تا کہ اگر قبائلی مسلمان امریکی منصوبے کو قبول کرنے سے انکار کریں تو ان کے خلاف فوجی آپریشن شروع کرنے کے لیےدرکار عوامی رائے عامہ پہلے سے ہی موجود ہو۔
دشمن امریکہ کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات اللہ، اس کے رسولﷺ اور ایمان والوں کے ساتھ خیانت ہے۔ افواج پاکستان کے مخلص افسران پر فرض ہے کہ وہ اس شیطانی سازش کو ناکام بنائیں اور اللہ، اس کے رسول ﷺ اور مسلمانوں سے وفاداری کو ثابت کرنے کے لیے خلافت کے قیام کے لیے بیعت دیں۔ ربیع الاول کے اس بابرکت مہینے میں مدینہ کے انصار نے پہلی اسلامی ریاست قائم کی تھی تو کیا ہی خوش نصیب ہوں گے آج کے انصار جن کے ہاتھوں دوسری اسلامی ریاست قائم ہوگی اور رسول اللہ ﷺ کی بشارت ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ "پھر خلافت قائم ہو گی نبوت کے طریقے پر" پوری ہو گی اور یقیناً اللہ کے لیے یہ بالکل بھی مشکل نہیں۔

 

Read more...

مسلم افواج کی جانب سے اسلام اور مسلمانوں سے غداری

نصیر الاسلام محمود

جس وقت امت مسلمہ نے خواب غفلت سے بیدار ہو کرمغرب کی غلامی اور بالادستی سے آزادی کا مطالبہ کیا اس وقت یہ مشاہدہ کیا گیا کہ مسلمانوں کی افواج ان غیر شرعی حکومتوں کا دفاع کررہی ہیں جن کو کافر مغرب نے امت مسلمہ پر مسلط کر رکھا ہے۔مسلم افواج کو چاہیے تھا کہ موجودہ خودساختہ حکومتوں سے چھٹکارہ پانے کے ذریعے مغرب کی بالادستی سے آزادی اور ایک ایسے نظام کے قیام کے لیے جس کو اللہ تعالٰی نے لوگوں کے لیے پسند کیا ہے امت کے شانہ بشانہ کھڑی ہوں۔ لیکن افواج نے انہی حکومتوں کا دفاع کیا حتٰی کہ ایجنٹ حکمرانوں کے خلاف آواز بلند کرنے پر حکمرانوں کے حکم پر مسلمانوں کا قتل عام کیا جس سے ایسا لگا کہ مسلمانوں کی افواج بھی حق اور اپنی امت کے خلاف باطل کے دست وبازو بن گئے ہیں۔
امت کی جانب افواج کے اس المناک رویے کے کچھ اسباب ہیں اور ہمیں ان اسباب پر غور کرنا چاہیے جن کی وجہ سے افواج نےان سرکش حکمرانوں کا ساتھ دیا۔ ان اسباب پر غور کرنے کے بعد ہی ہمیں معلوم ہو گا کہ یہ دردناک صورت حا ل دائمی ہے یا عارضی کہ جس پر قابو پایا جاسکتا ہے خصوصاً اس وقت جب ریاست خلافت قائم ہوجائے گی جو انشاء اللہ اب بہت قریب ہے۔
مسلمانوں کی افواج کی جانب سے مغرب کی کٹھ پتلی حکومتوں، جو کہ کفر کے ذریعے حکومت کرتی ہیں، کا ساتھ دینے کےکئی اسباب ہیں جن میں سے نمایاں یہ ہیں:
1۔ عسکری قیادت میں اعلی ترین عہدوں پر مغرب نوازوں کی موجود گی، جن کا نصب العین ہی یہ ہے کہ اپنے تکبر اور بے تحاشہ دولت جمع کرنے کے لیےاپنے عہدے سے ناجائز فائدہ اٹھایا جائے۔ لہٰذایہ اپنے عہدوں سے چمٹے رہتے ہیں اور انہیں بچانے کے لیے اپنی فوجی غیرت سے دسبرتدار ہوتے ہیں۔ کچھ تو ایسے ہیں کہ میدان کارزار کے جرنیل نہیں بلکہ مال ودولت کے جرنیل ہیں۔ یہ قیادتیں مسلم افواج کی قیادت کے اہل نہیں۔ بلاشبہ یہ لوگ دشمن کے مقابلے میں امت کی رسوائی کے ذمہ دار ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے ذریعے مغرب امت کے معاملات میں نہ صرف مداخلت کرتا ہے، بلکہ انہی کے ذریعے حکومت کرتا ہے کیونکہ یہ مغرب کی طرف سے مسلط کردہ خود ساختہ حکومتوں کی چوکیداری کرتے ہیں۔ یوں یہ قیادتیں مسلم علاقوں میں سرکشوں کے تخت و تاج اورخود ساختہ حکومتوں کی حفاظت کے لیے افواج کی قیادت کرتی ہیں۔حقیقی جنگوں میں افواج کی قیادت کرنے کی بجائے استعماری کافر کے مفادات کے لیے امت مسلمہ کے خلاف جنگ میں ان کی قیادت کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال عراق کے خلاف جنگ میں مسلم افواج کا مغربی صلیبی اتحاد میں شامل ہو نا ہے۔اسی طرح ایک اور مثال پاکستانی فوج اور متحدہ عرب امارات وغیرہ کے فوجی یونٹوں کا افغانستان پر قبضے کے لیے نیٹو اور امریکہ کی مدد کرنا ہے۔اگر یہ قیادتیں ان مسلم قیادتوں کی طرح ہوتیں جیسا کہ صحابہ، تابعین اور پھر اسلامی حکومت کے سائے میں تیرہ سو سالتک انکے نہج پر چلنے والے لوگ جن کے ذکر سے تاریخ کے اوراق بھرے ہیں، تو اس امت کو موجودہ کزتوری اور ذلت کا سامنا نہ ہوتا۔کہاں یہ موجودہ قائدین اورکہا ں محمدﷺ، اسلامی فوج کے پہلے کمانڈر انچیف۔ بدر کے دن آپﷺ اپنے صحابہ کی صفیں سیدھی فرمارہے تھے اور آپﷺ کے دست مبارک میں ایک تیر تھا جس سے آپﷺ صفیں درست فرمارہے تھے، اس دوران سواد بن غزیۃ کے پاس سے گزرے جو کہ بنی عدی بن النجار کے حلیف تھے ۔سواد بن غزیتہ صف سے آگے نکلے ہوئے تھے، رسول اللہ ﷺ نے تیر سے ان کے پیٹ کو دبایا اور فرمایا: سواد قطار میں ہو جا ؤ۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے مجھے تکلیف دی میں بدلہ لینا چاہتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: بدلہ لے لو۔ انہوں نے کہا : آپ ﷺ نے جب دبایا تھا تو میں نے قمیض نہیں پہنی ہوئی تھی۔رسول اللہ ﷺ نے بطن مبارک کو ظاہر کیا اور فرمایا: بدلہ لے لو۔ سواد آپ ﷺ سےلپٹ گیا اور بطن مبارک کو بوسہ دیا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے سواد تم نے ایسا کیو ں کیا ؟ انہوں نے کہا: آپﷺ کو معلوم ہے کہ جنگ میں کود نا ہے اور ہو سکتا ہے کہ قتل ہوجاؤں تو میں نے چاہاکہ آپﷺ کے ساتھ آخری معاملہ میرا یہ ہو کہ میرا بدن آپﷺ کے بدن کو چھوئے۔رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے خیر کی دعا فرمائی۔ ایک بار ایک مسلم کمانڈر جن کے سامنے لذیذ کھا نا لایا گیا تو انہوں نے پوچھا کہ سپاہیوں کو بھی یہی کھانا دیا گیا ہے۔ کہا گیا نہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ پھر میرے لیے بھی وہی کھانا لاؤ جو عام سپاہیوں کے لیے ہے۔
2 ۔ مسلم افواج میں موجود فوجی نظریات اور قوائد کا اسلامی عقیدے سے الگ ہونا۔ اگرچہ عالم اسلام میں افواج کا عقیدہ اسلامی عقیدہ ہی ہے مگر ان افواج کا فوجی نظریہ اسلامی عقیدے سے الگ ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک مسلم سپاہی وطنی چپقلش، نسلی تعصب یا کسی بھی جاہلانہ سوچ کی وجہ سے اپنے ہی ہم عقیدہ بھائی سے لڑتا ہے۔ وہ اسلامی عقیدہ جو ان کو یک جان کر تا تھا باہمی جنگوں اور لڑائیوں میں غیر مؤثر ہے۔ اسلامی عقیدے کی حمیّت عالم اسلام کی افواج میں موجود سپاہیوں پر اثرانداز نہیں ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک سپاہی بشمول اپنے علاقے کے دنیا کے مختلف حصوں میں اپنے بہن بھائیوں کی آہ و بکا سن اور دیکھ کر بھی اس کو اپنے اس اسلامی عقیدے سے مربوط نہیں کرتاجس کی بنیاد پر مجبوروں اور مظلوموں کی مدد کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ بے بس اور ستائے ہوئے مسلمان مدد کے لیے پکار رہے ہیں جیسا کہ شام کے مسلمان، برما کے مسلمان، فلسطین اور کشمیر کے مسلمان اور افغانستان کے مسلمان لیکن مسلم افواج کے سپاہی اس کو اپنے عقیدے سے اس طرح مربوط نہیں کرتے جیسے وہ نمازاوربعض عبادات خصوصاً نوافل کو کرتے ہیں۔ اپنے مجبور بھائیوں کے حوالے سے اپنے اوپر عائد ہونے والے فریضے کواسلامی عقیدے سے مربوط نہیں کرتے۔ وہ اگر چہ اللہ کے اس ارشاد کی تلاوت کرتے ہیں ...وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ... (اگر وہ دین کی بنیاد پر تم سے مدد مانگیں تو مدد تم پر لازم ہے)، مگر وہ اس آیت کو اپنے دینی بھائیوں کی مددکے حوالے سے اپنی ذمہ داری سے مربوط نہیں کرتے۔ اسی طرح اگر چہ ان کو اس خاتون کا قصہ یاد ہے جس نے "وامعتصماہ" یعنی "ہائے معتصم " کہہ کر مدد طلب کی تھی اور معتصم بھی اس کی مدد کےلیے نکل پڑا تھا اور اس کو اور اس کے ساتھ دوسرے خاندانوں کو آزاد کرالیا اور اس علاقے کو جس میں "انقرہ" بھی شامل تھا فتح کر لیا۔ مگر یہ اس قصے کو اپنے آباؤاجداد پر فخر کرنے کے لیے پڑھتے ہیں ان کے نقش قدم پر چلنے کے لیے نہیں۔
اسلامی عقیدے کا مسلم افواج کے فوجی نظریے کی اساس ہونا لازمی ہے۔ اسلامی فوج کا نصب العین اسلامی عقیدے، مسلمانوں اور اسلامی ریاست کی حفاظت اور اسلام کی دعوت کو پوری انسانیت تک پہنچانا ہےکیونکہ اسلام پوری انسانیت کے لیے اللہ کی ہدایت ہے۔ کوئی بھی چیز جو مذکورہ امور میں سے کسی ایک کے لیے خطرہ پیداکرے تو اسلامی افواج کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے دفاع اور حفاظت کے لیے سر دھڑ کی بازی لگادے۔
3 ۔ مسلم افواج میں اسلامی ثقافت(اسلامی تربیت) کا فقدان بلکہ ان کی تربیت غیر اسلامی ثقافت کے ذریعے کی جاتی ہے۔ لہٰذا مسلم افواج کافر استعمار کے سامنے کمزور پڑ جاتے ہیں۔مغرب اپنی ثقافت نافذکرنے کی شرط پر ہماری افواج کو اسلحہ فراہم کرتا ہے ۔وہ ہماری افواج کو ایسے کورسز کرواتے ہیں جن میں کرپٹ مغربی آزادیوں کے تصور اور جمہوریت کی تعریف بیان کی جاتی ہے اور نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دراصل اسلام کے خلاف لڑنے پر ان کی تعریف وتوصیف کی جاتی ہے۔یہ تربیت اس حد تک کی گئی کہ اب ہماری افواج اپنے ہی لوگوں کو دہشت گرد سمجھتے ہوئے جنگ کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دیکھنے میں آتا ہے کہ فوجی انٹلیجنس ایجنسیاں اسلامی شعائر کے پابند اور امت کے عروج کے لیے کام کرنے والوں کو نشانہ بناتی ہیں اور امت کے خلاف دشمن مغربی ممالک کی سازشوں کی انھیں کوئی پروا نہیں ہوتی ۔ مثال کے طور پر افواج پاکستان کی تربیت اس طرح کی جاتی ہے کہ اس سے امریکہ خوش ہو جائے اور اس کے مفادات کی حفاظت ہو سکے۔ اسی کو بنیاد بنا کر فوج نے یہ نظریہ اپنایا کہ دشمن اندرونی ہے جس کی تعریف امریکہ نے "سیاسی اور جہادی اسلام" کے طور پر کی ہے۔ انھوں نےامریکہ اور بھارت کودشمن نہیں سمجھا بلکہ سیاسی و جہادی اسلام کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو دشمن قرار دیا۔ انھوں نے ان مجاہدین کو دبانا شروع کردیا جو خطے میں امریکہ کے قبضے کے خلاف لڑتے ہیں اور یہ کہا کہ یہ لوگ "دہشت گرد" اور "قومی سلامتی" کے دشمن ہیں۔ پاکستان کی فوجی انٹیلی جنس نے فوج اور عام شہریوں میں موجود ان اسلام کے داعیوں کی جاسوسی کرنا شروع کردی جو خلافت کے قیام کے ذریعے امت کی نشاۃ ثانیہ کے لیے سخت جدوجہد کررہے ہیں۔
فوج کو لازمی بہترین اور اعلٰی پیشہ ورانہ تعلیم وتر بیت فراہم ہونی چاہیے اور ان کی سوچ میں فکری بلندی کی سطح بھی ممکن حد تک اعلٰی ہونی چاہیے۔اس کے علاوہ فوج میں ہر شخص کی اسلامی تربیت بھی ہونی چاہیے جو انھیں اس قابل کرے کہ وہ اسلام کو سمجھ سکیں تا کہ ایک سپاہی اپنے اصل دشمن کو جان سکے اور اسے شکست دینے کے لیے لڑے اور اس کو اپنی شرعی ذمہ داری سمجھے اور رسول اللہ ﷺ کے قول کے مطابق عمل کرے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فر مایا ((كُلُّ رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى ثَغْرَةٍ مِنْ ثُغَرِ الْإِسْلَامِ، اللهَ اللہَ لَا يُؤْتَى الْإِسْلَامُ مِنْ قِبَلِك)) "مسلمانوں میں سے ہر شخص اسلام کی چوکیوں میں سے ایک چوکی کا محافظ ہے، اسے اپنی چوکی سے اسلام کا دفاع کرنا ہے اور اپنی چوکی پر شکست کو قبول نہیں کرنا ہے"۔
اس سب کچھ کے بعد اب سوال یہ ہے کہ کیا ان افواج سے امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں؟
اس کا جواب ہے کہ یقیناً انہی سے امید بھی ہے۔ باوجود اس کے کہ مذکورہ بالا اسباب کی بنا پر ان افواج نے امت مسلمہ کو بے یارومدد گار چھوڑ دیا جس کی وجہ سے امت اپنے دشمنوں کے سامنے شرمندہ ہوئی مگر مسلم افواج میں مخلصین کی بھی ایک بڑی تعداد ہے جو مناسب موقع پر اسلام اور مسلمانوں کی مدد کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ ان کی اجل اور رزق اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ امت کا عروج خالدبن ولید رضی اللہ عنہ کے انہی فرزندوں پر موقوف ہے۔خالد نےبستر مرگ پر لیٹے ہوئے فرمایا تھا ((لقد شهدتُ مائة زحف أو زُهاءَها، وما في جسدي موضع شبر إلا وفيه ضربةٌ أو طعنة أو رَمْية، ثم هأنذا أموت على فراشي كما يموت العَيْر، فلا نامت أعين الجبناء)) "میں نے شہادت کی آرزو لیے سیکڑروں جنگیں لڑی ہیں کہ میرے جسم میں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں تلوار، نیزے اور تیر کے زخم کا نشان نہ ہو۔ پھر بھی اب میری یہ حالت ہے کہ آج اونٹ کی طرح بستر پر مر رہا ہوں، بزدلوں کی آنکھیں ہمیشہ شرمندگی سے نم رہیں"۔یہ وہ سپاہی تھے جو واقعی اللہ کی تلوار کہلوانے کے حقدار تھے اوروہ تلوار اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کے خلاف آخری دم تک حرکت میں رہی۔
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی علاقوں میں فوجیوں کی بہت بڑی اکثریت صرف آرڈر(حکم) کی پابندی کر رہی ہے جبکہ ان کے دل خون کے آنسو روتے ہیں کیونکہ وہ بھی اس امت کا حصہ ہیں۔ جیسے ہی ان کو موجودہ ایجنٹ قیادتوں سے جان چھڑانے کا موقع ملے گا تو وہ فوراً یہ کام کرگزریں گے ۔
یوں ان افواج سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ انہی کے اندر امت کے جواں مرد موجود ہیں۔ عنقریب امت اور اس کی افواج کافر مغرب سے چھٹکارا پالیں گی اور ایسے کارہائے نمایاں انجام دیں گی کہ اللہ ان سے راضی ہو جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((وَاعْلَمُوا أَنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ ظِلاَلِ السُّيُوفِ)) "جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے میں ہے"۔

Read more...

خلافتِ عثمانیہ کی فضائیہ

ڈاکٹر عبدلرافع، فواد سعید

رائٹ برادران کی اوہائیو (امریکا) میں پہلی کامیاب ہوائ جہاز کی پرواز کے صرف چھہ سال بعد ہی اسلامی ریاست (خلافتِ عثمانیہ) فوجی فزائی پروگرام کو شروع کرنے والی دنیا کی پہلی قوموں میں سے ایک بن گئی۔ مسلمانوں کا اس ٹیکنالوجی کو اپنانے میں یہ فوری قدم نہایت اثر انگیز لگتا ہے، دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اسلامی ریاست کی حفاظت اور اس کے پھیلاؤکے مقصد سے نئی نئی تکنیک اور ٹیکنالوجی کو حاصل کرنے کی بنیاد خود رسول اللہﷺ نے رکھی۔
طبریؒ نے اپنی ‘تاریخ' میں روایت کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنے دو صحابہ، عروہ ابن مسعودؓ اور غطان ابن سلمہؓ، کو دبابس (ٹینک کی طرح کے ہتھیار)، منجنیق اور دھابور (ٹینک ہی سے ملتے جلتے) کی تکنیکی کاریگری کو سیکھنے کے لئے شام کے شہر جرش بھیجا تھا ۔
رسول اللہ ﷺ کی سیرت سے اور بہت سی مثالیں ملتی ہیں، جیسے کہ فارس کے لوگوں کے انداز میں غزوہ میں خندق کا استعمال، یا پھر منجنیق کی تیاری اور اس کے استعمال کے فن کو سیکھنے کے لئے ایک گروہ کو یمن بھیجنا۔ اسلامی ریاست رسول اللہﷺ کی سنت پر اس وقت بھی عمل کرتی رہی جب وہ ٹیکنالوجی میں دنیا کی قیادت کر رہی تھی۔ اور جب توانائی کی پرواز اور فضائی ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی پروان چڑھی تو اسلامی ریاست نے ان ٹیکنالوجیوں کو اپنے استعمال کے لئے حاصل کرنے کے لئے کوئی وقت ضائع نہیں کیا۔
فضائیہ کی تاریخ کسی اور سائنس یا ٹیکنالوجی کی تاریخ سے مختلف نہیں ۔ فضائیہ میں یہ ترقی پہلی توانائی کی پرواز سے صرف چند سال پہلے ہی نہیں ہوئی، بلکہ یہ ایک طویل اور بھرپور تاریخ ہے جس میں چھوٹی چھوٹی پیشرفت میں بھی صدیاں بیت گئیں۔ کئی قدیم تہذیبوں نے پروجکٹائل ہتھیار تیار کئے اور اور انسان کی پرواز کے لئے طرح طرح کے آلات اور ڈزائن تیار کئے، جن میں سے بہت سےتجربے ناکام ہوئے لیکن کچھ کامیاب بھی رہے۔ ان میں قدیم یونان سے آرقائیتص کا مکانیکی کبوتر، چین سے آسمانی قندیل (گرم ہوائی غبارے) اور پہلا راکٹ ہتھیار جو چینیوں نے منگولوں کے خلاف استعمال کیا، جیسی مثالیں شامل ہیں۔ گیارہویں صدی ہجری کے تاریخ دان احمد محمد المقاری لکھتے ہیں کہ تیسری صدی ہجری میں عباس ابن فرناس پہلے شخص تھے جنہوں نےاپنے ڈزائن کئے ہوئے ونگ کونٹریپشن (پر نما آلے کے نظام) کے ذریعے سے گلائڈنگ ونگ (ہوا کے بہاؤ میں پروں کی) پرواز میں کامیابی حاصل کی۔
فضائیہ کے جدید دور کو صنعتی انقلاب کی آمد کے ساتھ مذید رہنمائی حاصل ہوئی۔ توانائی کی پرواز میں بڑی پیشرفت انیسویں صدی میں یورپ میں ہوئی جس کے نتیجے میں توانائی کی پروازوں میں کامیابی حاصل ہوئی۔ رائٹ برادران نے اپنے سے پہلے آنے والوں اور اپنے ہم عصر لوگوں کے کام کو بنیاد بناتے ہوئے، توانائی اور کنٹرول کے مسائل کو حل کیا اور ۱۹۰۳ میں اپنی تاریخی پرواز کی۔ اس کے بہت جلد بعد ہی انگلنڈ، فرانس، امریکہ، جرمنی، روس اور اٹلی نے اپنے فوجی فضائیہ کے پروگرام شروع کئے اور اسلامی ریاست نے بھی ان کی برابری کرتے ہوئے اپنا فضائیہ کا پروگرام ‘عثمانلی ہوا کووتلری' شروع کیا۔
اسلامی ریاست کے یورپ میں موجود فوجی سفارتکاروں نے یورپ میں ہونے والی فوجی ہوائی جہازوں کی تیاری کے کام کی معلومات حاصل کی اور بہت جلد ۱۹۰۹ میں خلافت عثمانیہ کے فوجی افسروں نے فرانسیسی ہوا بازوں کو استنبول میں کارکردگی دکھانے کی دعوت دی۔ جنگی وزیر محمت سِوکت پاشہ کی دعوت پر بلجیم کے پائلٹ بیرن ڈی کیٹرز نے استنبول آکر اپنے وائسن بائی پلین (دوہیرے پروں والے جہاز) کی نمائشی پرواز کی۔ اس مظاہرے کا براہ راست نتیجہ یہ نکلا کہ اسلامی ریا ست میں ملٹری ایوییشن (فوجی ہوابازی) کے بارے میں آگاہی اور شوق پیدا ہوا۔ عہدیداروں نے پیرس میں ہونے والی بین الاقوامی ایوییشن کانفرنس میں ایک ڈیلیگیشن بھیجا۔ ۱۹۱۰ میں مسلمان اُمیدواروں کو پائلٹ کی ٹریننگ کے لئے یورپ بھیجا گیا، لیکن ریاست میں مالی مشکلات کی بنا پر اس پلان کو ملتوی کرنا پڑا۔ اس کے باوجود کچھ پائلٹوں نے پیرس کے فزائی اسکولوں میں ٹریننگ حاصل کر کے اپنی فضائی سندیں حاصل کیں۔
عثمانی خلافت کے فوجی عہدیدار یورپ کی قوموں کے درمیاں بڑھتی ہوئی ہتھیاروں کی دوڑ اور مستقبل کی جنگی حکمت عملی میں فضائیہ کی اہمیت سے بھرپور واقفیت رکھتے تھے۔ کسی اچانک حملے یا پھر دوسری قوموں سے پیچھے رہ جانے سے بچنے کے لئے، جنگی وزیر محمت سِوکت پاشہ نے لفٹنٹ کرنل صوریا بےکو ۱۹۱۱ میں ہوائی غباروں کی خریداری، ایوییشن کی فسیلیٹی کی تعمیرکی قیادت اور پائلٹوں کی ٹریننگ کے انتظام کی زمہ داری دی۔ جنگی وزارت کے سائنسی ریسرچ یونٹ کے زیرِ اثر ایوییشن کمیشن کو قائم کیا گیا۔ محمت سِوکت پاشہ کی جانب سے دی گئی زمہ داریوں کے علاوہ اس کمیشن کو جاسوسی اور سٹریٹجک معلومات اکٹھا کرنے کا کام بھی دیا گیا۔ نا صرف ہوائی جہازوں نہیں بلکہ اینٹی ایرکرافٹ (جہاز مار گرانے والے) ہتھیاروں کے بارے میں بھی معلومات کو حاصل کیا گیا۔ جو کہ آنے والی اٹلی کے ساتھ جنگ میں بہت موئثر ثابت ہوئی۔
۱۹۱۱ میں اٹلی نے اسلامی ریاست کے کچھ حصے پر قبضہ کیا جو آج کے دور میں لیبیا کہلاتا ہے۔ خلافت عثمانیہ کی ناتجربے کار فضائیہ ہوائی جہازوں کو رکھنے کے قابل نہیں ہوئی تھی۔ فرانس سے ان ہوائی جہازوں کو خرید کر الجزائر کے زریعے میدان جنگ میں بھیجنے کی کوشش بھی کامیاب نہیں ہو سکتی تھی۔ ۲۸ ہوائی جہازوں اور ۴ ہوائی غباروں کے ساتھ اٹلی دینا کی پہلی قوم بنی جس نے جنگ میں فضائیہ کا استعمال کیا۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ اینٹی ایرکرافٹ (جہاز مار گرانے والے) ہتھیاروں میں ترقی کی وجہ سے اسلامی ریاست تاریخ کی وہ پہلی قوم بنی جس نے جنگ میں اینٹی ایرکرافٹ (جہاز مار گرانے والے) ہتھیاروں کا استعمال کیا۔ مسلمانوں کی فوج نے کامیابی کے ساتھ اٹلی کے ہوائی غباروں اور دوسرے ہوائی جہازوں کو مار گرایا اور ان میں سے کچھ پر قبضہ بھی کر لیا۔
۱۹۱۲ میں اسلامی ریاست کے پہلے پائلٹوں کپتان فیسا بے اور لفٹننٹ یوسف کننان بے اپنی ٹریننگ مکمل کر کے فرانس سے واپس ہوئے۔ انہیں رعایاکے دئے ہوئے فنڈ سے خریدے گئے ۱۵ ہوائی جہازوں میں سے ۲ دئے گئے۔ ۲۷ اپریل، ۱۹۱۲ کو فیسا بے اور یوسف کننان بے نے استنبول کے اوپر ہوائ جہازوں کو اُڑا کر اسلامی سرزمین پرجہاز اُڑانے والے پہلے مسلمان پائلٹ بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ کچھ ہی عرصے بعد، جولائی ۱۹۱۲ میں استنبول کے قریب یسِلکوئے نامی قصبے میں ایک فضائی ٹریننگ اسکول کھولا گیا تاکہ اسلامی ریاست خود اپنے پائلٹوں کو ٹریننگ دے سکے۔ یہ اسلامی ریاست کا ایک بہت اہم قدم تھا کہ جس نے دوسرے ملکوں پر انحصاری کو ختم کیا۔ جلد ہی پائلٹوں کی تعداد ۱۸ اور ہوائی جہازوں کی تعداد ۱۷ ہو گئی۔ جس کو جلد ہی اس وقت آزمالیاگیا جب بلقان کے نیم خودمختار علاقوں نے عثمانی خلافت سے بغاوت کی اور اسلامی ریاست کے خلاف علانِ جنگ کیا۔ اس تنازع کی ابتدا میں تو فضائیہ نے کوئی خاص کردار ادا نہیں کیا لیکن جنگ کے دوسرے مرحلے میں ۹ جنگی ہوائی جہازوں اور ۴ ٹریننگ ہوائی جہازوں نے اہم کارکردگی دکھائی۔
اپنی فضائیہ کی دلیری کا مظاہرہ کرنے کے لئے اور ریاست کے شہریوں میں جزبہ پیدا کرنے کے لئے خلافتِ عثمانیہ کے فوجی افسروں نے کئی طویل فاصلے والی پروازوں کا اہتمام کیا۔ اس سے فضائیہ کی طویل پروازوں کی کارکردگی میں اور پوری ریاست کی وسعت تک حفاظت کی صلاحیت میں بہتری پیدا ہوئی ۔ پہلی طویل پرواز عدرین سے استنبول تک اُڑائی گئی، جس میں ۳ گھنٹوں سے زیادہ وقت لگا۔ ۳۰ نومبر ۱۹۱۳ کو بلقیس سِوکت حنیم پرواز اُڑانے والی پہلی مسلمان خاتون بنیں۔ فرانسیسی پائلٹوں کو ملنے والی پزیرائی کے جواب میں، جنہوں نے پیرس سے قاہرہ تک پرواز کی، اسلامی ریاست نے ۱۹۱۴ میں استنبول سے اسکندریہ تک ۱۵۰۰ میل کے فاصلے کو طے کرنے کے مظاہرے کا اہتمام کیا۔ ٹیکنالوجی کے ان اوائلی ادوار میں موجود ایوییشن کے خطرات کی وجہ سے ایسے دو معرکوں کا نتیجہ جہازوں کی تباہی کی شکل میں نکلا لیکن تیسرا معرکہ کامیاب رہا۔
جب عثمانی خلافت پہلی جنگِ عظیم کی لپیٹ میں آئی تو اُس کے پاس صرف ۷ ہوائی جہاز اور ۱۰ پائلٹ تھے۔ اس کے وزیروں کی ثابت قدمی اور جانفشانی کی وجہ سے اور اس کے نئے حلیف، جرمنی کی مدد سے، فضائیہ ۴۶ پائلٹوں، ۵۹ اوبزرور (مشاہدین)، ۳ اوبزرور غباروں، ۹۲ ہوائی جہازوں (جن میں ۱۴ سمندری ہوائی جہاز) اور اس کے علاوہ، ۱۳ بیک اپ پائلٹ، ۲۲ اوبزرور ٹرینیز اور ۲۱ ٹریننگ ہوائی جہازوں تک بڑہ گئی۔ جیسے جیسےجنگ آگے بڑہی، مسلمانون نےبرتانوی ہوائی جہازوں کو پکڑ کر اِس تعداد کو مزید بڑھانے کی کوشش کی۔ فضائیہ اس بات کی واضح دلیل ہے کے اسلامی ریاست اپنے آخری دنوں میں بھی دنیا کے حالات اور ترقی سے کس حد تک آگاہ رہی۔
یہ ہے وہ داستان جو اسلامی ریاست نے دنیا کے مسلمانوں کے لئے چھوڑی۔ وہ اسلام اور مسلمانوں سے مخلص رہی اور اُس نے مسلمانوں کی زندگیوں کا اوراُنکے مفاد کا تحفظ کیا۔ تُرکی کی موجودہ سیکیولر ریاست، اسلامی ریاست کی فضائیہ کی براہِ راست وارث ہے، جو اسے دنیا کی قدیم ترین فضائیہ میں سے ایک بناتی ہے۔ کیا کرتی ہے یہ ترکی حکومت جب پڑوس میں شام، عراق، لبنان اور فلسطین کے مسلمانوں کو قتل کیا جا تا ہے؟ کیا کرتی ہیں دوسرے مسلمان ممالک کی کٹپتلی حکومتیں جب مسلمانوں پر اُنکے اپنے علاقوں پر حملے کئے جاتے ہیں اور انہیں قتل کیا جاتا ہے؟ کتنے پیچھے ہیں مسلمان اسلامی ریاست کی غیرموجودگی میں نیوکلیئر ٹیکنالوجی، سب مرین ٹیکنالوجی، سیٹلائٹ ٹیکنالوجی اور دوسری ٹیکنالوجیوں میں، جو کہ مسلمانوں کے دفاع کے لئے اتنی اہم ہیں؟ صرف وہ ریاست ہی اسلام اور مسلمانوں کی خیر خواہ ہو سکتی ہے اور اس کے وسائل کو انکی حفاظت اور بہتری کے لئے استعمال کر سکتی ہے جس کی قیادت ایک مخلص مسلمان کر رہا ہو، یعنی خلیفہ ۔ اور یہ صرف اور صرف اسلامی ریاست کے از سرِنو قیام کے زریعے ہی ممکن ہے۔

Read more...

جبری گمشدہ افراد کی عدم بازیابی نے اس کفریہ نظام میں آزاد عدلیہ کے جھوٹ کو بے نقاب کر دیا ہے


تحریر: شہزاد شیخ
(پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان)
تاریخ:17دسمبر2013
خبر: نومبر کا آخری ہفتہ اور دسمبر کے پہلے دس دن پاکستان کے میڈیا میں جبری گمشدہ افراد کا تذکرہ چھایا رہاجن کے عزیز و اقارب اپنے پیاروں کی جبری گمشدگی کا ذمہ دار حکومتی ایجنسیوں کو ٹھراتے ہیں۔ ان جبری گمشدہ افراد میں سے کئی کو اغوا ہوئے تقریباً ایک دہائی کا عرصہ گزر چکا ہے، جبکہ ان میں کچھ افراد کی لاشیں ویران جگہوں سے ملیں جن پر شدید تشدد کے نشانات واضح تھے۔

تبصرہ: پاکستان میں جبری گمشدہ افراد کا مسئلہ سب سے پہلے اس وقت پیدا ہوا جب 9/11 کے بعد اس وقت کے آرمی چیف اور صدر پاکستان پرویز مشرف نے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا۔پاکستان سے امریکی راج کے خاتمے اور خلافت کے قیام کی ایک توانا آواز،پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان نوید بٹ بھی ان جبری گمشدہ افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔ نوید بٹ کو 11مئی 2012 کو ان کے بچوں کی موجودگی میں حکومتی ایجنسی کے غنڈوں نے اغوا کیا تھا۔
یہ ظلم اور ناانصافی مشرف و عزیز حکومت کے خاتمے کے ساتھ ختم نہیں ہوا بلکہ کیانی و زرداری حکومت میں اس ظلم میں مزید کئی گنا اضافہ ہوگیا۔ اگرچہ اس عرصے میں ایک وزیر اعظم اپنی وزارت اعظمٰی سے صرف اس لیے ہاتھ دھو بیٹھا کیونکہ اس نے عدالتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے سوئس حکام کو خط نہیں لکھا تھا۔لیکن اس عظیم انسانی المیے پر آج کے دن تک آئی۔ایس۔آئی (I.S.I)کے سربراہ یا ملٹری انٹیلی جنس (M.I)کے سربراہ یا افواج پاکستان کے سربراہ کو عدالت کے سامنے پیش ہونے کا حکم جاری نہیں ہوا جبکہ کئی مقدمات میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ جبری گمشدہ افراد خفیہ ایجنسیوں کے قبضے میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جبری گمشدہ افراد کے وکیل نے کہا کہ "یہ ثابت کرتا ہے کہ عدلیہ اب بھی آزاد نہیں ہے" ۔ اسی طرح لاہور ہائی کورٹ بار کے سابق صدر نے کہا کہ "یہ محض ایک دھوکہ ہے"۔
چاہے آمریت ہو یا جمہوریت یہ کفریہ نظام صرف استعماری طاقتوں اور ان کے ایجنٹوں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ پاکستان کے عوام کے مسائل کا حل اس کفریہ نظام میں "آزاد عدلیہ" نہیں ہے ۔ جب یہ سرمایہ دارانہ نظام ہمیں خارجی تعلقات، معیشت اور دیگر معاملات میں آزادانہ پالیسیاں بنانے کی اجازت نہیں دیتا تو کیا ہم اس غلامانہ نظام کے ذریعے آزاد عدلیہ کے قیام کا خواب دیکھ سکتے ہیں؟ کیانی و زرداری حکومت سے راحیل و نواز حکومت تک، چہروں کی تبدیلی کبھی کسی مثبت تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت نہیں ہوگی۔ دراصل اس کفریہ نظام کا خاتمہ ہی وقت کی ضرورت ہے۔
آزاد عدلیہ کے قیام کے لیے پہلے آزاد سیاسی نظام کا ہونا انتہائی ضروری ہے جو کہ صرف خلافت کا نظام ہے۔یہ نظام عدلیہ کو مقننہ اور انتظامیہ کے اثرو رسوخ سے آزاد کرتا ہے کیونکہ عدلیہ صرف اور صرف قرآن و سنت کے مطابق فیصلے کرتی ہے اور ہر حکومتی عہدیدار چاہے وہ خلیفہ ہو یا امیر جہاد یا والی، کسی صورت عدلیہ کے سامنے پیش ہونے یا ان کے فیصلوں کو نافذ کرنے سے انکار کی جرات نہیں کرسکتا۔ لہٰذا خلافت میں عدلیہ عام عوام کے حقوق کی حقیقی ضامن ہوتی ہے اور اگر حکمران شریعت کے قوانین کی خلاف ورزی کریں تو ان کا سخت احتساب کرتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ وَايْمُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا " تم سے پہلے کے لوگ اس لیے تباہ ہوگئے کیونکہ جب ان میں سے کوئی بڑا شخص چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے لیکن اگر کمزور شخص چوری کرتا تو اس پر سزا لاگو کردیتے۔ اللہ کی قسم اگر محمدﷺ کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دوں گا" (بخاری)۔

Read more...

خود احتسابی (قرآن ،سنت اور علماءکے فرمودات کے آئینے میں)

قرآن کریم کی رُو سے:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ تَعْمَلُونَ "اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص کو چاہیے وہ دیکھ لے کہ وہ کل کے لیے کیا آگے بھیج رہا ہے اللہ سے ڈرو اللہ اس سے مکمل باخبر ہے جو کچھ تم کرتے ہو" (الحشر 59 : 18)۔ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرما تے ہیں کہ (ہر شخص کو چاہیے کہ وہ دیکھ لے کہ کل کے لیے کیا آگے بھیج رہا ہے ) یعنی "حساب کتاب کے لیے جانے سے قبل ہی اپنا محاسبہ کرو اور سوچ لو کہ تم نے آخرت کے دن اور اپنے رب کے سامنے پیش ہونے کے دن کے لیے کون کونسے نیک اعمال کا ذخیرہ کر رکھا ہے۔یاد رکھو کہ وہ تمہارے تمام اعمال اور احوال سے باخبر ہے اور اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں"۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ "اور میں ملامت کرنے والےنفس کی قسم کھاتا ہو" (القیامہ75 : 2)۔ قرطبی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ "اور ملامت کرنے والےنفس سے مراد مؤمن کانفس ہےجو ہمیشہ اس کو ملامت کرتا رہتاہے ، کہتاہے کہ اس سے تیرا ارادہ کیا ہے؟ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو کوستا ہے، ابن عباس، مجاہد اور حسن وغیرہ نے بھی یہی کہا ہے"۔ حسن کہتے ہیں کہ "اللہ کی قسم اس سے مراد مؤمن کانفس ہےجو ہمیشہ اپنے آپ کو ملامت کرتا رہتا ہے۔ میں اپنی بات میں کیا کہنا چاہتا تھا ؟میں کیا کھانے کا ارادہ رکھتا تھا ؟ اور میں اپنے آپ سے بات کر کے کیا حاصل کرنا چاہتا تھا ؟ اور فاجر (کھلم کھلا گناہ کا ارتکاب کرنے والا) اپنا محاسبہ نہیں کرتا"۔مجاہد کہتے ہے کہ "وہ گزرے ہوئے پر ملامت کرتاہے اور کوئی شر ہو تو اس لیے ملامت کرتاہے کہ اس کا ارتکاب کیوں کیا اور اگر خیر کا کام ہو تو اس لیے ملامت کرتاہے کہ اس کو زیادہ کیوں نہیں کیا؟ اوریہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ ملامت والاہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ جس چیز پر کسی کو ملامت کرتاہے اسی پر اپنے آپ کو بھی ملامت کرتاہے ۔ ان تمام صورتوں میں "لَوَّامَةِ" کا مطلب ملامت کر نے والاہے جو کہ اچھی صفت ہے"۔
اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : يُنَبَّأُ الْإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَىٰ نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ "اس دن انسان کو بتایا جا ئے گا کہ اس نے کیا کیا اور کیا نہیں کیابلکہ انسان اپنے آپ کو اچھی طرح جانتا ہے" ( القیامہ 75 : 13-14)۔ اس کی تفسیر میں ماوردی فرماتے ہیں کہ "اس میں تین تاویلات ہیں: ایک یہ کہ وہ جو کچھ آگے بھیج رہا ہے اس کے ذریعے اپنے آپ کے خلاف گواہ ہے،جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں، وَكُلَّ إِنْسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِي عُنُقِهِ ۖ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنْشُورًا اقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَىٰ بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا " اور انسان کی قسمت ہم نے اس کے گلے سے لگا دی ہے اور اس کے لیے قیامت کے دن ایک نوشتہ نکالیں گے جسے وہ کُھلا ہوا پائے گا۔ فرمایا جائے گا کہ اپنا نامہ اعمال آج پڑھ لو تو خود ہی اپنا حساب کرنے کو بہت ہے" (الاسراء 17 : 13-14) دوسری تاویل یہ ہے کہ: اس کے جوارح (اعضاء) اپنے اعمال کے بارے میں اس کے خلاف گواہ ہیں۔ ابن عباس کا یہی قول ہے جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے کہ الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَىٰ أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ "آج ہم ان کے منہ پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے ہم کلام ہوں گے اور ان کے پاؤں ان کے کرتوتوں کی گواہی دیں گے" (یٰس 36 : 65) تیسری تاویل یہ ہے کہ لوگوں کے عیبوں کو خوب باریکی سے دیکھنے والا جبکہ اس کے مقابلے میں اپنے عیوب سے غافل ہے کہ اس کے نتیجے میں کیا سزا اور جزاء ملنے والی ہے۔ بصیرہ کے آخر میں"ہ" مبالغے کے لیے ہے ۔ جہاں تک اللہ کے اس فرما ن کا تعلق ہے وَلَوْ أَلْقَىٰ مَعَاذِيرَهُ "اگرچہ وہ عذر پیش کرتا ہے" ( القیامہ 75 : 15)۔ اس میں بھی چار تاویلات ہیں: ایک یہ کہ اگر اس دن معذرت بھی کرے تو قبول نہیں کی جائے گی اور یہ قتادہ کا قول ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اگر وہ اپنے کپڑے بھی اتاردے اوریہ ابن عباس کا قول ہے۔ تیسرا یہ کہ اگرچہ وہ اپنی حجت کو سامنے بھی لائے اوریہ السدی کا قول ہے۔ چوتھا یہ کہ وہ اپنا ستر اتار پھینکےکہ یمن کی لغت میں عذربھی ستر کو کہتے ہیں یعنی اگرچہ وہ اپنے عذر بھی پیش کرے اوریہ ضحاک کا قول ہے اور ایک پانچواں احتمال بھی ہے کہ اگر وہ معذرت چھوڑ بھی دے اور سرتسلیم خم بھی کردے اس کو نہیں چھوڑا جائے گا"۔
سنت نبوی ﷺ سے:
نبی ﷺ نے بھی اس ملامت کرنے والےنفس کی طرف اشارہ فرمایا جو مؤمن کانفس ہےاور اس کو ہمیشہ ملامت کرتارہتاہے۔چنانچہ اس حدیث میں فرمایا جس کو ترمذی اور احمد نے روایت کی ہے اور ترمذی نے اس کو حسن قرار دیا ہے: امام احمد نے اپنی مسند میں اور الحاکم نے اپنی مستدرک علی الصحیحین میں النواس بن سمعان الکلابی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اللہ نے صراط مستقیم (سیدھے راستے) کی مثال دی ہے کہ راستے کے دونو ں پہلو میں دیواریں ہیں جن میں کھلے ہوئے دروازے ہیں اور ان دروازوں پر پردے لٹک رہے ہیں اور راستے کے آخر میں ایک منادی ہے جو کہتا ہے کہ: 'سیدھی راہ پر قائم رہو اور بھٹک مت جانا'۔ راستے کے اوپر بھی ایک پکارنے والا ہے جب بھی انسان کوئی دروازہ کھولنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے کہتا ہے کہ: 'تیرا ستیناس ہو ! اس کو کبھی بھی مت کھولو کیونکہ اگر تو اس کو کھولے گا تو اس میں داخل ہو جائے گا' لہٰذا اس مثال میں یہ راستہ اسلام اور یہ دودیواریں اللہ عزوجل کی حدود ہیں اور یہ دروازے اللہ کی حرام کی ہوئی چیز یں ہیں، راستہ میں منادی کرنے والا اللہ کی کتا ب اور راستے کے اوپر پکارنے والا ہر مسلمان کانفس ہے"۔
ایک حدیث میں جو انس بن مالک نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «الكيّس من دان نفسه وعمل لما بعد الموت، والعاجز من أتبع نفسه هواها وتمنَّى على الله الأمانيّ» "ہوشیار آدمی وہ ہے جو اپنے نفس کو قابو کرے اور موت کے بعد والی زندگی کے لیے عمل کرے، بے بس شخص وہ ہے جس کا نفس اس کی خواہشات کے تابع ہو اور وہ اللہ سے طرح طرح کی تمنائیں کرے" اس کو امام احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔
ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «إذا أراد الله بعبد خيراً جعل له واعظاً من نفسه يأمره وينهاه» " جس وقت اللہ کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کے اندر ہی اس کے لیے ایک واعظ مقرر فرماتے ہیں جو اسے حکم دیتا ہے(نیک اعمال کا) اور روک دیتا ہے (نافرمانی سے)" السیوطی نے الجامع الصغیر میں نقل کیا ہے۔
سلف صالحین اور علماء کے نزدیک محاسبہ کا مطلب:
نفس کے محاسبے کا معنی اس کو کوسنے اور شدت سے نگرانی کرنے کے ہیں۔
ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "جو اللہ کے لیے اپنے نفس پر سختی کرے اللہ اپنی سختی (غصے) سے اس کو محفوظ رکھے گا"۔
امام احمد نے ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ "آدمی اس وقت تک فقیہ نہیں بن سکتا جب تک وہ اللہ کے معاملے میں لوگوں سے سختی سے پیش آنے کے بعد اپنے آپ سے اس سے بھی زیادہ سختی سے پیش نہ آئے"۔
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں نفس کے محاسبے کا مطلب بندے کا یہ سمجھنا کہ اس کے لیے کیا اچھا اور کیا برا ہے اور اپنے حق کو لے اور اپنی ذمہ داری کو ادا کرے کیونکہ وہ ایک ایسے سفر میں ہے جہاں سے مسافر کبھی واپس نہیں آتا۔ اور وہ مزید کہتے ہیں کہ نفس یہ ہے کہ بندہ پہلے یہ دیکھے کہ آیا اس نے اللہ کا حق ادا کیا پھر دیکھے کہ کیا اس نے یہ حق کما حقہٗ ادا کیا ۔اور وہ کہتے ہیں کہ یہ بھی نفس کا محاسبہ ہے کہ اپنے حقوق اور فرائض کو پہچانے ۔ وہ ان کی ادائگیی میں سستی کرنے یا چھوڑدینےکی اجازت نہیں دیتا کہ وہ ضائع ہو جائیں۔ اس کے علاوہ نفس کی پاکی اور طہارت بھی خود احتسابی پر موقوف ہے اور خود احتسابی کے بغیر وہ نہ پاک صاف ہو سکتا اور نہ ہی اس کی اصلاح ہو گی۔
محاسبے کے بارے میں ماوردی کہتے ہیں کہ "انسان رات کو اپنے دن بھر کے اعمال پر غور کرے اگر اچھے ہوں تو اس کو جاری رکھے اور اگر برے ہوں تو باز آئے اور مستقبل میں اس کا تدارک کرے"۔
حارث المحاسبی نے خود احتسابی کی تعریف یوں کی ہےکہ"کہ ہر حال میں کوئی بھی فعل انجام دینے یا اس کو ترک کرنے سےاس کا ضمیر مطمئن ہو یا کسی بھی فعل کے جوارح کو ادا کرنے میں مکمل یکسوئی کا مظاہرہ کرنا تاکہ اس کو معلوم ہو کہ اسے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔ اگر اس کو معلوم ہو جائے کہ اس کام سے اللہ ناراض ہو گا تو اس کام کو دل اور جوارح سے ترک کردے اور اسی طرح اپنے آپ کو فرض کو ترک کرنے سے باز رکھے بلکہ اس کی ادائیگی میں جلدی کرے"۔
سعید بن جبیر اور عکرمہ نے نفس لوامہ کے بارے میں کہا ہے کہ "یعنی وہ خیر اور شر دونوں پر ملامت کر تاہے اور اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اچھے اور بُرے وقت میں صبر کرتا ہے۔
قتادہ نے کہا ہے کہ الَوَّامَة سے مراد فاجرہ (سیدھی راہ پر نہ چلنا) ہے جبکہ مجاہد کہتا ہے کہ وہ چھوٹ جانے والے فرض پر نادم ہو تا ہے اور کہتاہے کہ مجھے ایسا کرنا چاہیے تھا ۔
الفراء کہتے ہیں کہ "کوئی نفس نیک یا فاجر نہیں ہوتا وہ تو اپنے آپ کو خیر کے کام میں یہ کہہ کر ملامت کرتاہے کہ زیادہ کیوں نہیں کیا اور برے کام میں یہ کہہ کر ملامت کرتاہے کہ کاش میں یہ نہ کرتا"۔الحسن کہتے ہیں کہ "یہ مؤمن نفس ہے اور مومن اپنے آپ کو ملامت کرتاہے کہ میں نے اپنی بات سے کیا ارادہ کیا اوراپنے کام سے کیا ارادہ کیا جبکہ فاجر آگے بڑھتا ہی جاتا ہے اور اپنے آپ کا محاسبہ نہیں کرتا ہے"۔مقاتل کہتے ہیں کہ "اس سے مراد کافر نفس ہے جو قیامت کے دن دنیا میں اللہ کے معاملے میں نا انصافی پر اپنے آپ کو ملامت کرے گا"۔
یحیی بن مختا رنےالحسن سے روایت کی ہے کہ "مؤمن اپنے نفس پر قابو رکھتا ہے اور اللہ کے معاملے میں اپنے آپ کا احتساب کرتا ہے۔جو لوگ دنیا میں اپنا محاسبہ کرتے ہیں قیامت کے دن اس سے حساب ہلکا لیا جائے گا۔ جو لوگ دنیا میں خود احتسابی نہیں کرتے اس سے سخت حساب لیا جائے گا۔مؤمن کو کوئی چیز اچھی لگتی ہے اور اس کے دل کو بھاتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ اللہ کی قسم تو میری خواہش ہے اور میری ضرورت بھی ہے لیکن اللہ کی قسم مجھے تجھ سے کوئی سروکار نہیں میرے اور تمہارے درمیان بہت دوری ہے۔ اور جب اس سے کوئی غلطی سرزد ہوتی ہے تو اپنے آپ سے کہتا ہے کہ میں تو یہ نہیں چاہ رہاتھا ؟یہ کیا ہو گیا؟اللہ کی قسم آئندہ ایسا نہیں کروں گا ان شاء اللہ۔ مؤمنین ایسے لوگ ہیں جن کو قر آن پر بھروسہ ہے اور وہی ان کے اور ان کی ہلاکت کے درمیان حائل ہے۔ مؤمن دنیا میں ایک قیدی ہے جو اپنی گردن کو چھوڑانے کی تگ ودو کر رہا ہے۔ وہ اللہ سے ملنے تک کسی چیز سے مطمئن نہیں ہو گا۔ اس کو معلوم ہے کہ اس کے کان، آنکھ، زبان اور جوارح کے بارے میں اس سے پوچھا جائے گا"۔
میمون بن مہران کہتے ہیں کہ "کوئی آدمی اس وقت تک متقین میں سے نہیں ہو سکتا جب تک اپنے شریک سے زیادہ اپنا محاسبہ نہیں کرتا ہو، جب تک وہ یہ نہیں دیکھے کہ اس کا کھاناکہاں سے آتا ہے، لباس کہاں سے آرہا ہے، کہاں سے پی رہا ہے یہ سب حلال ہیں یا حرام"۔
ایک شخص یونس بن عبید کے پاس آیا اور کہا کہ "تم یونس بن عبید ہو؟ کہا جی ہاں، اس نے کہا: اللہ کا شکر ہے تجھے دیکھنے سے پہلے مجھے موت نہیں آئی۔ انہوں نے کہا: تم کیا چاہتے ہو؟ اس شخص نے کہا: میں ایک مسئلہ پوچھنا چاہتا ہوں۔ کہا: جو چاہو پوچھو ۔ اس شخص نے کہا پرہیزگاری کا مقصد کیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہر پہلو سے اپنے آپ کا احتساب کرنا اور ہر مشکوک چیز سے دور رہنا ۔ اس شخص نے کہا کہ زہد کی غایت کے بارے میں بھی مجھے بتادو؟ کہا: راحت کو ترک کرنا"۔
حسن بن علی الدقاق نے کہا ہے کہ " اطاعت کی بنیاد پرہیز گاری ہے اور پرہیز گاری کی بنیاد تقوی ہے اور اصل تقوی نفس کا محاسبہ ہے اور محاسبہ بھی خوف اور امید کے ساتھ کیونکہ خوف اور امید معرفت ہے اور معرفت کی اصل علم کی زبان اور فکر ہے"۔
الحسن رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ "اللہ اس بندے پر رحم کرے جو کسی کام کا ارادہ کرتے وقت سوچتا ہے کہ اگر اس میں اللہ کی رضاہو تو کر گزرتا ہے ورنہ اس سے باز رہتا ہے"۔
میمون بن مہران نے کہا ہے کہ "کوئی بھی شخص اس وقت تک متقی نہیں ہو سکتا جب تک اپنے نفس کااس قدرسخت محاسبہ نہ کر ے جو دو شراکت دار ایک دوسرے کا کرتے ہیں اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ نفس خیانت کرنے والے شریک کی طرح ہے، اگر اس کا محاسبہ نہیں کرو گے تو یہ سب کچھ لے اڑے گا"۔
ابن قدامہ نے منہاج القاصدین میں کہا ہے کہ "یاد رکھو تمہارا سب سے بڑ دشمن تمہارا اپنانفس ہےاس کی تخلیق ہی برائی کا حکم کرنے والے اور شر کی طرف مائل ہونے والے کے طور پر کی گئی ہے۔تمہیں اس کو سدھارنے اس کو پاک کرنے اور برائی سے دور رکھنے حکم دیا گیا ہے ۔تم اس کو اپنے رب کی عبادت کے لیے سخت زنجیروں میں قید کرو۔ اگر تم نے اس کو ڈھیلا چھوڑ دیا تو پھر وہ سرکش اور سرپھرا بن جائے گاجس پر تم پھر قابو نہیں پاسکو گے۔ اگر اس کی ڈانٹ ڈپٹ میں پابندی کرو گے تو امید ہے مطمئن رہو گے اور اس یاد دہانی کرنے میں غفلت کا مظاہرہ مت کرو"۔

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک