المكتب الإعــلامي
ولایہ افغانستان
ہجری تاریخ | 21 من صـفر الخير 1447هـ | شمارہ نمبر: 1447/02 |
عیسوی تاریخ | جمعہ, 15 اگست 2025 م |
پریس ریلیز
اگر "جمہوریت" کا خاتمہ خلافت کے قیام پر منتج نہ ہو
تو اسے خلافت راشدہ کی طرف ایک عبوری مرحلہ ضرور ہونا چاہیے
(ترجمہ)
افغانستان میں جمہوری نظام کا خاتمہ بلاشبہ اکیسویں صدی میں افغان عوام اور مجموعی طور پر امت مسلمہ کے لیے اہم ترین تبدیلیوں میں سے ایک ہے۔ یہ نظام نہ صرف اسلامی عقیدہ سے کلیتاً بیگانہ تھا بلکہ نوآبادیاتی فکر کا نیا ڈھانچہ تھا—ایک درآمد شدہ نظام، جو کرپشن، غلامی اور ظلم کو ادارہ جاتی شکل دینے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ اس کا سقوط ایک ایسے نظام کا فطری اور ناگزیر انجام تھا جو اپنی پیدائش سے ہی اسلامی شناخت سے بیگانہ اور اسلامی اقدار سے متصادم تھا۔
جمہوری نظام، جیسا کہ افغانستان میں نافذ کیا گیا تھا، ایک ناکام نمونہ تھا - اپنی فطرت میں ایک طاغوتی نظام - جس میں اسلامی اعتبار سے کوئی بھی مشروعیت موجود نہ تھی۔ یہ بالآخر مسلمانوں کی مزاحمت، مجاہدین کے اخلاص، اور دعوت کے حاملین کی بیداری کے نتیجے میں منہدم ہو گیا۔ہم افغانستان کے مسلمان عوام، مخلص مجاہدین، حق کے داعیوں، اور پوری امت مسلمہ کو اس تاریخی اور بابرکت تبدیلی پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ ہم اسے ایک فیصلہ کن موڑ، ایک بیداری، اور اسلامی خودمختاری کی طرف واپسی قرار دیتے ہیں۔
تاہم، جمہوریہ اور جمہوریت محض ایک نام یا علامتوں یا سابقوں کا مجموعہ نہیں ہیں جو نظام کے سقوط کے ساتھ ہی ختم ہو جائیں۔ بلکہ یہ ایک مکمل نظریاتی و سیاسی فریم ورک کی نمائندہ ہیں، جو داخلی حکمرانی اور خارجہ پالیسی کے مخصوص اصولوں پر مبنی ہوتا ہے۔ لہٰذا، جمہوریہ کے انہدام کے بارے میں بات کرنے کے باوجود، اس کی فکری بنیاد، یعنی اس کے سیاسی ادارے، قوانین، پالیسیاں اور دنیا کے بارے میں اس کا نظریہ، بڑی حد تک برقرار ہے۔
اور افسوس کے ساتھ، آج کے حکمران، اگرچہ بعض اوقات افغان روایات سے استفادہ کرتے ہیں،لیکن پھر بھی سیاسی حقیقت پسندی، سرمایہ دارانہ عملیت پسندی، اور قبائلی قومیت کے بنیادی عناصر کو اپنائے ہوئے ہیںجو اسی جمہوری ماڈل کی نمایاں خصوصیات ہیں جسکے وہ بظاہر بظاہر مخالف ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس کی واضح مثال "قومی مفاد" پر مسلسل زور دینا اور سیکولر عالمی نظام کے ساتھ ہم آہنگی حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ لہذا، محض قیادت کی تبدیلی یا ایک ناکارہ انتظامی ڈھانچے کو ختم کر دینا جمہوری نظام کے مکمل خاتمے کے مترادف نہیں ہے۔
افغانستان کے دائمی مسائل میں سے ایک اس کی حکومتوں کا عدم استحکام ہے۔ اور اگرچہ غیر ملکی مداخلت نے کردار ادا کیا ہے، تاہم لیکن اس سے کہیں گہرا مسئلہ حکمرانوں اور عوام کے درمیان حقیقی اور فطری ربط کا فقدان رہا ہے۔ یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں ایک مشترکہ شناخت قائم کرنے یا عوامی سطح پر وسیع مشروعیت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اس لیے یہ حیران کن نہیں کہ یہ حکومتیں یا تو اندرونی طور پر بکھر گئیں یا بیرونی قوتوں کے ذریعے گرا دی گئیں۔
اگر موجودہ حکومت حقیقی استحکام اور دائمی جواز کا خواہاں ہے، تو اسے یہ ادراک کرنا ہوگا کہ سیاسی اقتدار امت مسلمہ سے پھوٹتا ہے۔اسے چاہیے کہ وہ معاشرے میں اسلامی حل کو جڑوں تک نافذ کرے، اور داخلی و خارجی دونوں پالیسیوں میں صرف اسلام ہی کو اپنا مرجع بنائے۔ اسلامی نقطہ نظر میں، اقتدار اسلامی معاشرے سے حاصل ہوتا ہے، نہ کہ بین الاقوامی نظام یا اس کے اداروں سے کی گئی التجاؤں سے۔اسلام میں مشروعیت بین الاقوامی اعتراف سے نہیں، بلکہ شرعی بیعت سے حاصل ہوتی ہے—یعنی مومنین کی طرف سے کیا گیا وفاداری کا شرعی عہد۔
لہٰذا، اسلام میں حکومرانی کی بنیاد اسلامی عقیدے، اسلامی سیاست، اور اسلامی پیغام پر قائم ہونی چاہیے۔ یہ پیغام حکمران کو قومیت، اقتصادی مفاد، اور غیر جانبداری کی قیود سے آزاد کرتا ہے، اور اسے اس بات کا پابند بناتا ہے کہ وہ اسلام کی بالادستی کا اعلان کرے اور اسے دعوت و جہاد کے ذریعے نافذ کرے۔
اور آخر میں، اس بات پر زور دینا ضروری ہے کہ افغانستان کے موجودہ حکمران اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم آزمائش اور امتحان سے گزر رہے ہیں۔ سیاسی تبدیلی اور اقتدار سنبھالنے کے بعد، ان پر لازم تھا کہ وہ نہ صرف زبان سے بلکہ اسلام کے مکمل اور جامع نفاذ کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے، اور اس میں مصنوعی قومی ریاست کی حدود سے باہر جہاد جاری رکھنا، تمام غیر اسلامی اقدار، افکار اور نظاموں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا، اور خلافت کی بحالی اور اس کے حقیقی حکمرانی کو فوری طور پر قائم کرنے کی راہ ہموار کرنا شامل ہے۔اور اگر وہ اس کے برعکس سیکولر عالمی نظام میں اپنے لیے ایک نئی جگہ بنانے کی کوشش کریں؛ اگر وہ نوآبادیاتی قوتوں اور ان کے اداروں سے اعتراف حاصل کرنے کے خواہاں ہوں؛ اگر ان کے درمیان جہاد کی روح ماند پڑ جائے؛ اور اگر وہ اسلام کو جزوی اور انتخابی انداز میں نافذ کریں، تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی تنبیہ جلد ہی نافذ العمل ہو جائے گی
﴿وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمْ﴾
"اور اگر تم پھر جاؤ گے، تو وہ تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئے گا، پھر وہ تمہاری طرح نہیں ہوں گے۔" (سورہ محمد، آیت 38)
ولایہ افغانستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير ولایہ افغانستان |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: |