بسم الله الرحمن الرحيم
اٹھ کھڑا ہونا کسی اجازت کا محتاج نہیں،
جبکہ داخلی شکست اور مظلومیت کا وہم کبھی بھی غلبے کا راستہ نہیں بنتا
تحریر: استاد محمود البکری
بڑی بڑی تبدیلیوں کے اس دور میں، عسکری بالادستی وہ سب سے خطرناک چیز نہیں جو اقوام کو جکڑتی ہے، بلکہ ذہنی اور نفسیاتی شکست وہ چیز ہے جو قوموں کو یہ باور کراتی ہے کہ وہ کمزور ہیں، اور انہیں یہ محسوس کراتی ہے کہ تبدیلی دشمن کی رضامندی یا حامی کی منظوری پر منحصر ہے۔ یہ احساس توانائیوں کو سُلا دیتا ہے اور ارادوں کو مفلوج کر دیتا ہے، نتیجتاً غلبہ کی راہ ہموار کرنے کے بجائے مظلومیت کو تقویت دیتا ہے۔
آج سرزمین شام کے علاقوں میں یہی چیز راسخ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جب ظلم و استبداد کی قوتیں ٹوٹ چکیں، نظام کی بنیادیں لرز گئیں، اور انقلاب دارالحکومت کے قلب تک پہنچ گیا—تو اچانک وہی پرانا مایوس کن بیانیہ واپس لوٹ آیا کہ "ہم ایک غریب ریاست ہیں، ہمیں بیرونی مدد کی ضرورت ہے، ہم خود اپنی قیادت نہیں کر سکتے... ہم کمزور ہیں، حقیقت پسند بنیں اور حقیقت کو قبول کریں!"
تاہم، محض کمزور محسوس کرنے سے بھی زیادہ خطرناک یہ ہے کہ اس احساس کو فروغ دیا جائے اور اسے ایک منظم پالیسی میں تبدیل کر دیا جائے جو اجتماعی شعور میں اس لیے بوئی جائے تاکہ تبدیلی اور اٹھ کھڑے ہونے کے ارادے کو مفلوج کیا جا سکے۔
یہ بیانیہ، جو ہم دیکھ رہے ہیں، کسی خلا میں پیدا نہیں ہوا۔ بلکہ اسے ایک اصول بنانا مقصود ہے—ایسا اصول جسے اندرونی و بیرونی قوتیں تقویت فراہم کرتی ہیں، وہ قوتیں جو اس امت کے شعور، اس کی آزادی اور اس کی تبدیلی کی صلاحیت سے خائف ہیں۔جب بھی امت فیصلہ کن موڑ کے قریب پہنچتی ہے، جب بھی وہ بیداری کے وسائل اپنے ہاتھ میں لیتی ہے، یہ قوتیں جھوٹ پر مبنی یاددہانی کرواتی ہیں کہ: "تم اس کے اہل نہیں ہو!" کہ "حقیقت پسندی" کا تقاضا ہے کہ پیچھے ہٹ جاؤ! کہ "دنیا اس وقت اجازت نہیں دے گی!" گویا وہ کل اجازت دے دے گی، یا جیسے وہ یہ سمجھتے ہوں کہ وہ اُسے دھوکہ دے سکتے ہیں!
اور یہاں "عبوری مرحلہ" ایک جامد سیاسی عقیدے میں بدل جاتا ہے، جس میں منصوبہ تعطل کا شکار ہوتا ہے، اور دولت منجمد ہو جاتی ہے، اور قیادت ضرورت اور عجز کے وہموں سے جکڑی جاتی ہے، تو وہ اپنی اندر کی ذلت کو اپنی قوم کے دلوں میں بو دیتی ہے۔
جب رسول اللہ ﷺ مدینہ میں داخل ہوئے تو انہوں نے قریش سے اجازت نہیں مانگی، اور نہ ہی رومیوں کی تسلیم شدگی کا انتظار کیا، بلکہ انہوں نے ایک ریاست قائم کی، ایک دستور بنایا، مردوں کی تربیت کی، اور اقوام سے خطاب کیا... اور چونکہ رسول اللہ ﷺ وحی پر مبنی ایک آیڈیالوجیکل عالمی منصوبہ رکھتے تھے، تو انہیں اللہ کی نصرت حاصل ہوئی۔
تو آج، ہم کب یہ ادراک کریں گے کہ ہمارا مسئلہ حقیقی کمزوری نہیں بلکہ یہ مصنوعی وہم ہے؟ اور ہم کب یہ ادراک کریں گے کہ اصل طاقت عوامی حمایت (حاضنہ)میں ہے؟
شام میں انقلاب کی عوامی حمایت شکست سے دوچار نہیں ہوئی، بلکہ اب بھی حمایت عطا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہی وہ عوامی حمایت ہے جس نے اپنے بچے اور اپنے مال پیش کیے اور سخت ترین حالات میں انقلاب کی حمایت کی،لیکن آج جب پرانا نظام گرا چکا ہے، اُسی حاضنہ کو صرف ایک ایسا مجمع سمجھا جا رہا ہے جسے قابو میں رکھا جائے، نہ کہ متحرک کرنا، جسے ضرورت کے وقت یاد کیا جاتا ہے اور اختلاف کی صورت میں اُسے کنارے لگا دیا جاتا ہے۔ نئی انتظامیہ اس عوامی حمایت (حاضنہ) کے دلوں سے انقلاب اور جہاد کی روح کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ہم کب یہ ادراک کریں گے کہ ریاست عوامی حمایت کی بنیاد پر بنتی ہے نہ کہ اس کی قیمت پر، اور منصوبے کی بنیاد پر بنتی ہے نہ کہ ہتھکنڈوں کی بنیاد پر، اور ایک مخلص، آیڈیالوجیکل قیادت کی بنیاد پر بنتی ہے نہ کہ عہدوں اور باریوں کی گنتی سے؟!
حقیقی طور پر اٹھ کھڑے ہونے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ عوام کے کردار کو خاموشی اور انتظار تک محدود کر دیا جائے، اور قیادت کے کردار کو ہم آہنگی اور چالاکی تک محدود کر دیا جائے، تو منصوبہ غائب ہو جاتا ہے، اور "ہم کمزور ہیں" کے اصول پر قائم "عارضی اقدام" ایک مستقل پالیسی بن جاتا ہے۔
اٹھ کھڑے ہونے کا عمل کسی بین الاقوامی کانفرنس کا انتظار نہیں کرتا، اور نہ ہی یہ فیصلہ ہوٹلوں کے کانفرنس ہالز میں کیا جاتا ہے، اور نہ ہی مغربی دارالحکومتوں سے عزت کی بھیک مانگی جاتی ہے۔ پس اٹھ کھڑے ہونے کا عمل ایک دلیرانہ ذاتی فیصلہ ہے، ،پیش قدمی ایک ایمان ہے، استقامت ہے، اور غلبہ اللہ کی طرف سے ایک عطیہ ہے—جو اُسے دیا جاتا ہے جو سچا ہو، مخلص ہو، ثابت قدم ہو۔
اور یہاں ہمیں رک کر ان لوگوں میں تمیز کرنی چاہیے جو حالات کے دباؤ میں راستہ بھٹک گئے، اور ان لوگوں میں جو حقیقت پسندی کے پردے میں اصولوں سے منحرف ہو گئے، تو پہلا گروہ مکالمے اور احتساب سے درست ہو سکتا ہے، لیکن دوسرا گروہ سیاسی میدان سے نکالے جانے کے لائق ہے، قیادت کی کرسی پر بیٹھنے کے نہیں۔
پس جو حقیقی غلبہ و اختیار چاہتا ہے، اسے اپنی تیاری کرنی چاہیے جو ایک آیڈیالوجیکل منصوبے، ایک باشعور قیادت، ایک متحرک امت، اور واشنگٹن، انقرہ یا ریاض کی بجائے اللہ کی طرف نظر، اور اندرونی شکست اور ذلت کی بجائے خود اعتمادی پر مشتمل ہو۔
شام نہ تو کمزور ہے اور نہ ہی غریب، بلکہ وہ اپنے وسائل اور اپنی مادی و انسانی توانائیوں سے مالا مال ہے: تیل، گیس، زراعت، ایک نایاب جغرافیائی محل وقوع، اور طاقت عطا کرنے والی عوامی حمایت۔ اس کے باوجود اسے ایک آفت زدہ علاقے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے،گویا انقلاب نے فقر کو جنم دیا ہو! جبکہ فقر تو ان عشروں کی منظم لوٹ مار کا نتیجہ ہے، جو اسد کے نظام نے روا رکھی تھی — اور جسے ختم کرنا چاہیے، نہ کہ چمکانا یا اس کے گرد چکر کاٹنا۔
یہی وہ مقام ہے جہاں قیادت کے بحران کا چہرہ بار بار عیاں ہوتا ہے— ایسی قیادت جو عوامی حمایت کو بوجھ سمجھتی ہے، اور اسے طاقت کے ذخیرے کے طور پر نہیں دیکھتی۔ وہ ان کے لیے کھلنے کے بجائے، عوام کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرتی ہے، گویا غلبہ حاصل کرنا اور اس کے لیے کام کرنا کسی غیر معینہ بین الاقوامی نوٹس تک مؤخر ہے—جو کبھی آئے گا ہی نہیں!
خطرناک بات صرف شکست خوردہ بیانیے میں نہیں ہے، بلکہ اس کے فکری مسلمات میں بدل جانے میں ہے جو کانفرنسوں اور مطالعوں میں سکھائے جائیں، دہرائے جائیں اور انہیں قانونی حیثیت دے دی جائے، یہاں تک کہ تنقید ایک جرم بن جاتی ہے اس بنیاد پر کہ یہ تنقید بگڑے ہوئے حالات پر معترض ہے، یا اس "حقیقت پسندی" پر جو فاسد حالات کو ہی اصل قرار دیتی ہے اور پھر آیڈیالوجیکل متبادل ایک غیر حقیقی خیالی دنیا (یوتوپیا) بن جاتا ہے۔
پس آج ہمیں ایک ایسے واضح بیانیے کی کتنی ضرورت ہے جو حالات کا محاسبہ کرے اور اس کی مشکلات کو تسلیم کرے لیکن اس کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہو، جو امت کے افق کو کھولے لیکن اسے مذاکراتی کمروں میں قید نہ کرے، ایک ایسا بیانیہ جو انتظار اور ذلت کی ذہنیت کو ختم کرے، اور اس کی جگہ پیش قدی اور عزم کی ذہنیت پیدا کرے، اور جو اعتماد اللہ پر قائم کرے، نہ کہ مغرب کے سفیروں پر۔
مسلمانوں کے لیے غلبہ اور اختیار اللہ پر ایمان سے آتا ہے نہ کہ اقوام متحدہ سے۔ آج ہم جس لمحے میں جی رہے ہیں وہ امت کی عمر میں ایک نایاب لمحہ ہے، اسے مظلوم ہونے کی ذہنیت سے نہیں چلایا جانا چاہیے۔
جس نے زمین حاصل کر لی، اور عقلوں کو آزاد کرایا، اور بین الاقوامی منصوبے کو بے نقاب کیا، اس کے لیے کئی قدم تو دور صرف ایک قدم پیچھے ہٹنا بھی جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ عمل جہاد کے پھل کو ضائع کر دیتا ہے، اور پرانے نظام کو نئے نعروں کے ساتھ دوبارہ پیدا کرتا ہے۔
ہمارے اوپر واجب یہ ہے کہ ہم کسی بین الاقوامی اعتراف یا بیرونی امداد کا انتظار نہ کریں، بلکہ اپنے عقیدے سے ابھرنے والا اپنا منصوبہ خود اخذ کریں، اور اپنی دولت اور اپنی توانائیوں کو دوبارہ دریافت کریں۔ ہمیں قافلے کے آخر میں رہ کر "اتفاق رائے" پر مبنی قیادت کا انتظار نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی اس کی درویشی پر تالیاں بجانی چاہئیں، بلکہ ہمیں ایک مخلص قیادت کا انتخاب کرنا چاہیے جو سچی ہو، آیڈیالوجیکل ہو، اور کسی سمجھوتے کے بغیر ایک واضح منصوبہ رکھتی ہو۔
انقلاب، جو ایک راسخ نظریہ بن کر لوگوں کے دلوں میں پیوست ہو چکا ہے، ابھی تک توانائیوں سے لبریز ہے، حاضنہ ابھی تک ایمان سے دھڑک رہا ہے، اور جن کے اندر عزم ہے، ان پر لازم ہے کہ وہ اٹھیں اور سچائی اور ثابت قدمی کے ساتھ اس کی قیادت سنبھالیں، یہ لمحہ نہ کسی سودے بازی کا لمحہ ہے، نہ پیچھے ہٹنے کا، بلکہ اٹھ کھڑے ہونے کا لمحہ ہے؛ اور فیصلہ یہیں ہونا چاہیے— کھلے میدان میں، نہ کہ ان سودے بازیوں کے کمروں میں، جہاں نیا استعماری مندوب—باراک—فیصلے لکھ رہا ہو!